لانگ مارچ شرکاء کو ہراساں کیا گیا تو بی ایس او بلوچستان بھر میں احتجاجی تحریک چلائے گی – رہنماؤں کی پریس کانفرنس

117

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رہنماؤں نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے باسی اس وقت انتہائی کرب و اذیت سے گزر رہے ہیں۔ یہ درد و کرب ستر سالہ ظلم و جبر کے تسلسل کا نتیجہ ہے جہاں ریاست کو ماں کہنے والے ریاستی اداروں کی پالیسیاں بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسی سلوک جاری ہیں، بلوچ سرزمین پر خون کی ندیاں بہائی گئی ہزاروں نوجوان گمنام زندانوں میں پڑے ہے جن کا کسی کو بھی علم تک نہیں کہ وہ کس حال میں ہے۔ انسانی حقوق کا کوئی بھی قانون انسانوں کو اس طرح لاپتہ کرکے انکو خاندان کو اذیت و درد میں مبتلا کرنے کا اجازت نہیں دیتا مگر ریاستی ارارے آئین و قانون کو پاؤں تلے روند کر ظلم کی انتہا پر اتر آئے ہیں۔

کوئٹہ پریس کلب میں وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ کی ہمرائی میں سیکریٹری جنرل بی ایس او صمند بلوچ، سینٹرل کمیٹی کے رکن ایوب بلوچ، شال زون کے آرگنائزر کبیر بلوچ نے پریس کانفرنس کی۔

پریس کانفرنس میں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ تربت میں بدنام زمانہ سی ٹی ڈی بلوچ اسیران کو جنکی عدالت میں ٹرائل چل رہا تھا اُنہیں جعلی مقابلے میں بیدردی سے شہید کر کے تمام تر قومی، انسانی اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں۔ جسکے بعد شہداء کے لواحقین لاپتہ افراد کے ورثاء اور بلوچ عوام نے ایک تحریک شروع کر دی جو دھرنے کی صورت میں شروع ہوئی اور اب لونگ مارچ کی شکل اختیار کر کے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے دار الحکومت اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کی اس پر امن تحریک کو شروع دن سے مختلف حربوں کے ذریعے زیر اتاب رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ریاست پر امن مظاہرین سے مذاکرات کر کے اُنکے جائز مطالبات پورا کرنے کے بجائے تشدد پر اتری جو روزِ اول سے ریاست کا وطیرہ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب لانگ مارچ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بلوچستان کے علاقے کوہلو پہنچی تو عوامی طاقت سے خوف زدہ مقتدر قوتوں نے لانگ مارچ میں شریک بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن سنگت بخش مری، فضل بلوچ، نعمت مری سمیت تیس سے زائد پر امن مظاہرین پر جھوٹا پرچہ کاٹا گیا۔ قبل ازیں ڈیرہ غازی خان سے بی این پی کے ضلعی رہنماء ذوالفقار بلوچ سمیت چار افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہتھکنڈے بلوچ سیاسی کارکنوں کو خوف زدہ کر کے انہیں اپنی جائز حقوق کے مطالبات سے دست بردار کرانے کی ناکام کوشش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل گریشہ اور خضدار میں بھی لانگ مارچ کے شرکاء سمیت لاپتہ افراد کے لواحقین پر دہشت گردی کے جھوٹے آیف آئی آر درج کیے جاچکے ہیں ۔ یہ عمل نہ صرف پرامن شہریوں سے آئینی احتجاج کا حق چیننے کی مترادف ہے بلکہ بلوچ عوام کی جمہوری جدوجہد پر قدغن لگانا ہے۔ تنظیم کے مرکزی کمیٹی کے رکن مولابکش مری سمیت شرکاء پر درج ایف آئی آر کو مکمل رد کرتے ہوئے عدالت میں چیلنج کرینگے جبکہ ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے ہوئے ہیں جس سے بلوچ قوم کی سیاسی و جمہوری جدوجہد کو زیر نہیں کیا جاسکتا۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ لانگ مارچ کے شرکاء کے تمام تر مطالبات فل فور و من و عن تسلیم کیے جائیں۔ اگر یہ جھوٹی ایف آئی آر واپس نہیں لیا گیا یا تنظیمی ذمہ داران و لانگ مارچ کے شرکاء کو انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو بی ایس او بلوچستان بھر میں احتجاجی تحریک چلائے گی۔