سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں 21 فیک انکاونٹرز میں دو سو سے زائد لاپتہ بلوچوں کو قتل کیا ۔ وی بی ایم پی

240

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ نے حوران بلوچ اور لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید کی والدہ کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم احتجاجی کیمپ میں پریس کانفرس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی سے اپیل کی کہ بالاچ بلوچ سمیت فیک انکاونٹرز میں لاپتہ بلوچوں کے قتل کا سوموٹو لیں اور ان واقعات کا عدالتی تحقیقات کراکے انصاف کے تقاضے پورے کرے اور لاپتہ بلوچوں کی فیک انکاونٹرز میں قتل کو روکنے، ان میں ملوث کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ بالاچ بلوچ سمیت دیگر تین افراد کو سی ٹی ڈی نے آبسر تربت میں مارنے کا دعوی کیا تھا وہ پہلے سے لاپتہ تھے جن کے کیسز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے ساتھ درج ہے۔ بالاچ بلوچ کو 28 اگست کو آبسر تربت سے انکے گھر سے فورسز نے غیر قانونی گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا تھا اور انہیں فیک انکاونٹرر میں قتل کرنے سے دو دن پہلے منظر عام پرلاکر بوگس مقدمات میں انکی گرفتاری ظاہر کی گئی اور بالاچ ساتھ فیک انکاونٹر مارے جانے والے دیگر تین افراد بھی پہلے سے لاپتہ تھے جن میں شکور بلوچ کو 25 جون کو آبسر تربت انکے گھروں سے اور سیف اللہ آبسر تربت سے انکے دکان سے فورسز نے حراست میں لینےکے بعد جبری لاپتہ کردیئے تھے ۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ سنہ 2021 میں سی ٹی ڈی نے لاپتہ بلوچوں کو فیک انکاونٹرز میں قتل کرنے کے سلسلے کو شروع کیا جو تاحال جاری ہے اب تک سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں 21 فیک انکاونٹرز میں دو سو سے زائد لاپتہ بلوچوں کو قتل کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان فیک اکاونٹرز کا کا حکومتی اور نہ ہی عدلیہ کے سطح پر نوٹس لیا گیا ہے ۔

نصراللہ بلوچ نے تربت میں فیک انکاونٹرز میں لاپتہ بلوچوں کے خلاف احتجاجی دھرنے پر بیٹھے دھرنے کے شرکاء کی مطالبات کی حمایت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انکے مطالبات پر فوری طور پر عملی اقدامات اٹھائیں۔