ریاستی جبر کے باوجود بی ایس او نوجوانوں کی حقیقی نمائندہ تنظیم ہے۔ بابل ملک بلوچ

103

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے 56 واں یوم تاسیس کے موقع پر بی ایس او (پجار )کی جانب سے مستونگ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او (پجار) کے وائس چیئرمین بابل ملک بلوچ، نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر حاجی نذیر سرپرہ، سینٹرل کمیٹی کے ممبر شکیل بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برسوں سے جاری ریاستی جبر کے باجود بی ایس او آج بھی بلوچ نوجوانوں کا حقیقی نمائندہ تنظیم ہے اور تنظیم آج بھی واضح موقف کیساتھ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے بلوچستان میں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سیاسی بیگانگی پھیلایا جارہا ہے تاکہ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو غیر سیاسی عناصر اور سیاسی عمل سے نابلد عناصر کو متعارف کیا جارہا قبائلی و گروہ بندی کو فروغ دیا جارہا بلوچستان کے عوام کو اس بدترین صورتحال سے نکالنے کے لیئے بی ایس او پجار کو اپنا تاریخی اور قومی کردار کو ادا کرنا پڑیگا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کا سنگ بنیاد 1920 میں مستونگ سے عظیم قومی رہنما میر عبدالعزیز کرد نے صرف 13 سال کی عمر میں ینگ بلوچ نامی تنظیم کے نام سے رکھا جسے بعد ازاں 1967 میں بلوچ طلبا کی مضبوط سیاسی تنظیم بی ایس او نے بڑے منظم انداز سے آگے بڑھایا۔

سینٹرل کمیٹی کے ممبر شکیل بلوچ، نیشنل پارٹی تحصیل کھڈکوچہ کے جنرل سیکرٹری وزیر خان، نصیب بلوچ، شرجیل ظفر بلوچ، ناصر بلوچ اور قدیر بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بی ایس او نے حقیقی قومی جدوجہد کا راستہ اپنا کر بلوچ نوجوانوں کو قومی حقوق کے حصول کے لیے ایک واضح سمت مہیا کی ہے۔ بلوچ نوجوانوں نے بی ایس او کے بینر تلے خود کو یکجا کیا اور نظریاتی حوالے سے پختہ سیاسی کارکنان کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کرجدوجہد کو جلا بخشی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بی ایس اوکے نئے نظریے، بلوچ قومی تحریک میں اہم کردار اور عوام میں پذیرائی کے سبب تنظیم روز اول سے ریاستی عتاب کا شکار رہی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، درجنوں کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی جبکہ کئی رہنما برسوں گزرنے کے باوجود تاحال اسیر ہیں۔ نوجوانوں میں خوف وہراس پھیلانے اور تنظیمی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ظلم و جبر کیساتھ طلباء سیاست و سیاسی سرکلنگ پر پابندی عائد کرنے سمیت مختلف سازشی حربوں کو بروئے کار لایا گیا۔