ریاست اتنی کمزور ہے کہ وہ 14 سالوں سے لاپتہ ذاکر مجید کا جرم نہ بتاسکی – والدہ کی پریس کانفرنس

164

جبری لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء ذاکر مجید بلوچ کی والدہ نے اتوار کے روز کوئٹہ پریس کلب میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ گذشتہ 14 سالوں سے اس پریس کلب کا چکر اس امید کے ساتھ لگاتی ہوں کہ کسی کے دل میں رحم آئے اور وہ میرے بیٹے ذاکر مجید بلوچ کے بارے میں مجھے معلومات فراہم کرکے مجھے زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائے مگر اب صرف سال بڑھ جاتے ہیں مگر ذاکر مجید کا کوئی حال احوال نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ آج سے چودہ سال قبل 8 جون 2009 کو مستونگ پڑنگ آباد سے جب ذاکر مجید کو اٹھایا گیا تو میں نے اہل خانہ کے ہمراہ 2 مہینے سے زیادہ وقت تک یہاں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا مگر اس ملک میں پرامن سیاسی و جمہوری احتجاج و طریقوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ذاکر مجید بلوچ بی ایس او آزاد کے سینیئر وائس چیئرمین تھے اور طلباء لیڈر ہیں۔ 60 دنوں تک ہم پریس کلب کے سامنے بیٹے رہے کہ کہیں ہمارا بیٹا ہمیں لوٹا دیا جائے گا یا اگر انہوں نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے گا مگر ہمارے احتجاج کے باوجود انہیں رہا کیا گیا نہ ہی منظر عام پر لایا گیا۔

والدہ نے کہاکہ ذاکر مجید کی بازیابی کے لئے پھر کراچی میں بھی ہم نے بھوک ہڑتالی کیمپ لگائی مگر وہاں سے بھی ناامید لوٹنا پڑا اس کے بعد بھی ہم مایوس نہیں ہوئے پھر اہلخانہ نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا ان احتجاج اور مظاہروں کے باوجود بھی ذاکر مجید کی رہائی ممکن نہ ہوئی۔

والدہ نے کہاکہ ریاست رحم کرے یا نہ مگر ایک ماں کی اپنے اولاد سے محبت کبھی ختم نہیں ہوتی اب 14 سال ہونے والے ہیں کہ ذاکر مجید زندان میں قید ہیں لیکن بطور ماں میں نے ان 14 سالوں میں ایک دن بھی انہیں یاد کئے بغیر نہیں گزارہ ہے اور اس تمام عرصے میں ہمیشہ ان کی بازیابی کے لئے کسی نہ کسی طرح جد و جہد جاری رکھا ہے۔ میں ان 14 سالوں سے کوئٹہ، اسلام آباد اور کراچی پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہروں میں شریک رہی ہوں۔ میں اس ریاست سے اپیل کررہی ہوں کہ اپنے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ذاکر مجید کو منظر عام پر لاکر دکھایا جائے تاکہ ہمیں اسکی سلامتی کا سکون تو ملے مگر میری اس قانونی اور آئینی مطالبے کو بھی سنا نہیں جارہا ہے۔ اگر ذاکر مجید کسی جرم میں ملوث ہیں تو یہ عدالتیں کس لیے بنائے گئے ہیں انہیں عدالت میں پیش کرکے جو بھی سزا دینا ہے دیا جائے مگر انہیں جبری لاپتہ رکھنا کونسا انصاف ہے میں پوچھنا چاہتی کہ ریاست اور ریاستی ادارے اتنے کمزور ہے کہ وہ 14 سالوں سے ذاکر مجید کا جرم نہ بتاسکے اور ایک بےبس اور لاچار ماں کو بیٹے کی جدائی کی اذیت میں تڑپاتے رہے میرے خیال میں اس انسانیت سوز ظلم کی ملکی قوانین اور ہمارا مزہب اسلام اجازت نہیں دیتی، میں پوچھتی ہوں کہ پھر ہم پر یہ ظلم و جبر کیوں کیاجارہا ہے؟

انہوں نے کہاکہ میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ ملکی اداروں کے اہلکار میرے پاس آئے اور مجھ سے میرے دوسرے بیٹے وحید کے حوالے سے پوچھا تو میں نے انہیں حلفیہ بیان دیا کہ میرا بیٹا وحید ملک سے باہر دبئی میں ہے لیکن ایف سی نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے کہ میں نے اپنے حلفیہ بیان میں ذاکر مجید کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ وہ ملک سے باہر ہے لیکن وہ حلفیہ بیان اب بھی کرائم برانچ کے دفتر میں جو ذاکر مجید کے کیس پڑا ہوا ہے اس میں یہ حلفیہ بیان موجود ہے جس میں میں نے صرف یہ بیان دیا ہے کہ میرا بیٹا وحید ملک سے باہر ہے ریاستی ادارے ایک طرف ذاکر مجید کے کیس میں غلط بیانی کرکے مجھے اذیت دے رہے ہیں اور دوسری طرف خضدار میں میرے گھر کے سامان، ذاکر جان کی تصویرے اور ذاکر جان کے یاد گار کے طور پر رکھے ہوئے چیزوں کو جلا کر ہماری اذیت میں اضافہ کررہے ہیں میں ریاست سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم اس ملک کے شہری نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ اسلام کے نام پر بنے والے ملک میں اتنا ظلم ہورہا ہے

انہوں نے کہاکہ آپ سے ایک مرتبہ پر اپیل کرتی ہوں کہ میرے بیٹے کی بازیابی کے لئے میری آواز کو توانا کریں۔ 14 سال سے بیٹے کی جدائی کا غم لئے پھر رہی ہوں مگر ہمیں اب تک انصاف نہیں مالا ہے۔ ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کو پندرہ سال مکمل ہو جائیں گے۔ پندرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی مدت نہیں بلکہ یہ ایک مکمل زندگی ہوتی ہے اور میں نے یہ تمام زندگی اپنے بیٹے کے بغیر گذاری ہے۔ اب مجھے ذاکر مجید کی جدائی کی اذیت خاموش رہنے نہیں دے گی میں اپنے لخت جگر کی باحفاظت بازیابی کے لیے بھر پور احتجاجی تحریک چلاؤنگی میں زندگی کی تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کرتی ہوں کہ ذاکر مجید کی بازیابی کے لئے جاری جد و جہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ اور میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کے اداروں پاکستان کے حکمرانوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ 14 سال کا عرصہ انتظار میں گذر گئی اب مزید انتظار کی سکت نہیں میرے بیٹے کو منظر عام پر لایا جائے۔