جنگ کے بعد غزہ میں سکیورٹی اسرائیل سنبھال لے گا – نیتن یاہو

150

اسرائیل اور حماس کی تاحال قریب ساڑھے گیارہ ہزار ہلاکتوں کی وجہ بننے والی جنگ کو ایک مہینہ ہو گیا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جنگ کے بعد غیر معینہ عرصے کے لیے غزہ پٹی میں سکیورٹی خود اسرائیل سنبھال لے گا۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے مابین موجودہ جنگ کو شروع ہوئے منگل سات نومبر کے روز ٹھیک ایک مہینہ ہوگیا مگر اس تنازعے کے دوسرے مہینے میں داخل ہو جانے کے بعد بھی یہ اب تک بس شدید تر ہوتا ہوا ہی نظر آ رہا ہے۔

ساڑھے گیارہ ہزار کے قریب ہلاکتیں

سات اکتوبر کے روز اسرائیل پر عسکریت پسند تنظیم حماس کے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہونے والی یہ لڑائی اب تک مجموعی طور پر ہزارہا انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔ حماس کے حملے میں اسرائیل میں چودہ سو سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی پر جو مسلسل فضائی اور زمینی حملے شروع کیے، ان میں بھی حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں وزارت صحت کے مطابق اب تک دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ مرنے والوں میں ہزاروں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ دوسری طرف حماس کے جنگجو اسرائیل پر حملے کے دوران جن تقریباً 240 افراد کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے تھے، وہ بھی اب تک یرغمالیوں کے طور پر حماس ہی کے قبضے میں ہیں۔

’غزہ پٹی کی سکیورٹی آئندہ اسرائیل کی ذمے داری‘

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے ساتھ موجودہ جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں سلامتی امور کی مجموعی ذمے داری غیر معینہ مدت کے لیے اسرائیل اپنے سر لے لے گا۔

بینجمن نیتن یاہو نے یہ بات ایک امریکی ٹی وی سے گزشتہ رات نشر ہونے والے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہی۔ ان کے الفاظ میں اگر اسرائیل نے ایسا نہ کیا تو پھر حماس کی دہشت گردی ناقابل تصور حد  تک پھیل جائے گی۔

حماس کو یورپی یونین کے علاوہ امریکہ اور کئی دیگر ممالک نے بھی باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔

اس جنگ میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے مسلسل فضائی اور زمینی حملوں کے باعث اب تک نا صرف وسیع تر تباہی ہوئی ہے بلکہ غزہ کے شمالی حصے سے جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے والوں باشندوں کی تعداد بھی لاکھوں میں بنتی ہے۔ غزہ کے یہ باشندے ایسا اپنی جانیں بچانے کے لیے یا اسرائیلی فوج کی طرف سے بار بار کی جانے والی ہدایات کے بعد کر رہے ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ غزہ کی شہری آبادی شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہو جائے۔

اسی دوران منگل کے روز اسرائیلی دفاعی افواج نے شمالی غزہ میں اب تک موجود عام باشندوں کو جنوب کی طرف چلے جانے کے لیے چار گھنٹے کی مہلت دینے کا اعلان کیا۔

’تمام یرغمالیوں کی رہائی تک جنگ بندی نہیں ہو گی‘

ایک امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ اپنے تازہ انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ جب تک حماس کی طرف سے تمام 240 یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا جاتا، تب تک کوئی عمومی جنگ بندی ممکن نہیں ہو گی۔

اسرائیلی سربراہ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے ساتھ موجودہ حالات میں ایک عمومی فائر بندی کے تو خلاف ہیں تاہم وہ اس لڑائی میں ‘مختصر ٹیکٹیکل وقفوں‘ کے امکانات پر بات کر سکتے ہیں۔

دریں اثنا اسرائیلی دفاعی افواج نے منگل کے روز کہا کہ غزہ پٹی کے شمال میں حماس کے ایک عسکری مرکز کو اسرائیلی دستوں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فورسز کو حماس کے اس عسکری گڑھ سے ٹینک شکن میزائل، راکٹ لانچر اور دیگر ہتھیاروں کے علاوہ انٹیلیجنس کے لیے استعمال ہونے والا مواد بھی ملا۔

غزہ سے مزید سینکڑوں افراد کا رفح کے راستے انخلا

بحران زدہ غزہ پٹی میں اب بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسے غیر ملکی اور دوہری شہریت کے حامل فلسطینی پھنسے ہوئے ہیں، جو وہاں سے رفح کی سرحدی گزرگاہ کے راستے مصر جانا چاہتے ہیں۔

ایسے غیر ملکیوں اور دوہری شہریت کے حامل فلسطینیوں کا غزہ سے وقفے وقفے سے انخلا مخصوص شرائط کے تحت اور محدود تعداد میں ابھی چند دن پہلے ہی شروع ہوا تھا۔ منگل سات نومبر کو بھی اس سرحدی گزرگاہ کے راستے مزید سینکڑوں غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والے فلسطینیوں کو مصر پہنچنا تھا۔

فلسطینی بارڈر اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے مطابق جن تقریباً چھ سو افراد کو آج رفح بارڈر کراسنگ پار کرنا تھی، ان میں ڈیڑھ سو کے قریب جرمن شہری بھی شامل تھے۔ ان سینکڑوں غیر ملکیوں اور دوہری شہریت رکھنے والے دیگر باشندوں میں زیادہ تعداد فرانس، کینیڈا، یوکرین، رومانیہ اور فلپائن کے شہریوں کی تھی۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ کا مشرق وسطیٰ کا نیا دورہ

اقوام متحدہ اور اس کے بہت سے ذیلی اداروں کی طرف سے گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری فائر بندی کی جائے تاکہ لاکھوں سویلین متاثرین کی ہنگامی طور پر مدد کی جا سکے اور غزہ پٹی میں امدادی سامان بھی پہنچایا جا سکے۔

اس پس منظر میں عالمی ادارے کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک اب مشرق وسطیٰ کے اپنے پانچ روزہ نئے دورے کے آغاز پر مصر پہنچ گئے ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ رفح کی سرحدی گزرگاہ کا دورہ بھی کرنا چاہتے ہیں اور کل بدھ کے روز وہ اردن کے دارالحکومت عمان میں ملکی حکام اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیال بھی کریں گے۔

مصر پہنچنے پر فولکر ترک نے اسرائیل اور حماس کی جنگ کا ایک مہینہ پورا ہو جانے کی مناسبت سے اپنے ایک بیان میں کہا، ”(جنگ کا) یہ ایک پورا مہینہ انتہائی خونریز، بے تحاشا مصائب، تباہی، ناامیدی اور شدید پریشانی کا مہینہ ثابت ہوا ہے۔‘‘