مبارک قاضی کا وفات قومی سانحہ ہے۔ بی ایس او

153

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بزرگ انقلابی شاعر واجہ مبارک قاضی کے وفات کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے انتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ مبارک قاضی بلوچ ادب کے وہ درخشاں ستارہ تھے جس نے جدید بلوچی شاعری کو نئی شکل دیکر بلوچستان کے حالات و جبر پر آواز بلند کی،مبارک قاضی اپنی شاعری کے توسط سے بلوچستان کا مقدمہ لڑتے رہے جسکی پاداش میں انہوں نے قید و بند کی صعبوتیں برداشت کیے۔ بلوچ سرزمین شعراء و دانشور جنم دینے کے حوالے سے کافی زرخیز اور اپنی مثال آپ رہی ہے اور مبارک قاضی اسی سرزمین سے جنم لینے والے فرزندوں میں سے ایک تھے جس نے مادر وطن میں ہونے والے مظالم کے اپنے انوکھے شاعری میں احسن طریقے سے آشکار کیا۔

ترجمان نے کہا مبارک قاضی اپنے عہد کے تمام شعراء سے نہ صرف منفرد تھے بلکہ بین القوامی سطح پر ایک مقام رکھتے تھے۔ ادب اور شاعری کو بروئے کار لاکر انہوں نے زبردست مزاحمت کی۔ مبارک قاضی کی شاعری مزاحمت کی علامت ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی طلباء سیاست میں متحرک رہتے ہوئے وہ بلوچ طلباء کی رہنمائی کرتے رہے۔ واجہ مبارک قاضی نے آخری دم تک اپنے اصولی موقف کے زریعے سرزمین کا مقدمہ لڑتے رہے جو بلوچ قومی تحریک اور تاریخ میں تا ابد نقش رہے گا۔

ترجمان نے آخر میں بلوچ قومی شاعر واجہ مبارک قاضی کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رحلت سے بلوچ قوم ایک منفرد و انقلابی شاعر سے محروم ہو گیا ہے جس کی کمی عشروں تک محسوس کی جائے گی ۔