گریشگ منشیات کے زیر اثر – فدا بشیر

97

گریشگ منشیات کے زیر اثر

تحریر: فدا بشیر

دی بلوچستان پوسٹ

گریشگ کا شمار بلوچستان کے ان پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے جو تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ جہاں کے لوگ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کو بڑے شہروں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں تاکہ وہ علاقائی مسائل اور اِن زہنی کوفتوں سے نکل کر اپنی تعلیم مکمل کر سکیں اور ایک اچھے مستقبل کے معمار بن سکیں۔ لیکن شومئی قسمت گزشتہ چند سالوں سے گریشہ میں منشیات فروشوں کے گروہ پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنے اڈے بنا لئے جس کے ذریعے وہ ضلع خضدار سے مشکے اور دوسروں شہروں میں باآسانی سپلائی کرتے ہیں۔

منشیات فروشوں نے اپنا مکمل نیٹ ورک بنا لیا ہے اور وہ سریج سے لیکر گریشگ کے ہر گاؤں میں منشیات سپلائی کرتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سپلائی کرنے والے خود منشیات کی زد میں آگئے اور وہ چوری جیسے وارداتوں مجبور ہوئے۔ جہاں لوگوں کی گھروں کی سامانیں ، مشینریز کے آلات اور باغات کی فصلیں محفوظ نہیں ہیں۔

مرکزی شھر سریج میں تو دن دہاڑے چوری کی وارداتیں بڑہ رہی ہیں، جس پر علاقے کے طالب علموں نے سوشل میڈیا کی توسط سے اس ناسور کے خلاف آواز اٹھائی تو مختلف حربوں سے چپ کرانے کی کوشش کی گئی اور کی جارہی ہے کیونکہ علاقے کے با اثر سیاسی شخصیات اس گناہ میں برابر شریک ہیں اور وہ اس کھلی چھوٹ پر خود اپنی فیصد کا طلبگار ہیں۔ انہی لوگوں کی وجہ سے منشیات فروشوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

انکی وجہ سے چوری کی وارداتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں نہ سرکاری سکول و ہسپتال، نہ کسی کے گھر محفوظ ہیں، حتیٰ کہ گزشتہ چند مہینوں کی بات ہے کہ چوروں نے مسجد کی بیٹریاں اور پنکھے اپنے ساتھ لے گئے۔ درمیان میں ان میں سے ایک کو سکول کی میز چرانے پر علاقے کے لوگوں نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر خود پولیس کے حوالے کر دیا۔

لیکن پولیس نے بھی پیسے کاساتھ دیا، وہ راستے میں حوالات سے جانے سے پہلے واپس گھر آیا تھا اور کوئی بھی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی کہ ملزم کو کچھ حد تک سزا مل سکے۔ اس صورتحال میں نہ تو لوگوں کے گھر محفوظ ہونگے ہیں اور نہ ہی ان کی کھڑی فصلیں اور مشینیں۔

میں گریشگ کے عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی جان و مال کی حفاظت خود کریں اور گریشہ کو منشیات سے پاک کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھیں تاکہ کل آپ کے ہی بچے ان منشیات فروشوں کے ہاتھوں محفوظ رہیں اور ایک اچھی مستقبل کے معمار بن سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔