فدائی حملہ: جنگی بوکھلاہٹ یا شعوری پختگی ۔ مہر شنز خان بلوچ

649

فدائی حملہ: جنگی بوکھلاہٹ یا شعوری پختگی

تحریر: مہر شنز خان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات، تحریک، اشخاص، اور موومنٹس ہوئے ہیں کہ جہاں انکے ماننے والوں نے آخری حد (خودکش حملہ) جیسے شدید اقدام کا انتخاب کیا ہے۔ افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان، کرد، تامل ٹائیگر، اور آئیرش ریپبلکن آرمی نے خود سوزی سے لیکر خود کو اڑانے جیسے قدم کا چناؤ کیا ہے۔ بلوچ بھی اپنی تاریخی حیثیت کو بحال کرنے کیلئے محو سفر ہیں جہاں وہ اپنی آزادی کے حصول کیلئے اس دنیا میں تاحال متعارف شدہ تمام سخت ترین اقدام تک کا انتخاب کر چکے ہیں، انہوں نے کبھی بھی اپنی قومی شناخت اور بقاء کی جنگ کیلئے کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ تحریک میں شروعات مردوں کی جنگی عمل سے شروع ہوکر اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ عورتوں نے بھی اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوے اپنے ہم عصر لیلی خالد، اور اپنے قومی ہیروئین  بی بی بانڑی، بی بی گل بی بی جیسی عظیم مرتبت والی عورتوں کے عہد کو دوبارہ زندہ کرنے کا ٹھان لیا۔

وہ کیا وجوہات اور مجبوری ہیں کہ ایک انسان اپنی خوشحال اور زندگی کی رنگینیوں کو چھوڑ کر خود کو پناہ کر کے ابدی امر ہونے کا انتخاب کرتا ہے، آیا یہ جنگی بوکھلاہٹ ہے یا شعوری پختگی کہ جہاں ایک انسان خود کو بارود سے لپیٹ کر دشمن پر قہر برساتا ہے۔ حقیقت تو بوکھلاہٹ کا ہونا نہیں بلکہ بوکھلاہٹ کی وجہ ہونا ہے۔ یعنی خود کش بوکھلاہٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ بوکھلاہٹ کی وجہ ہوتی ہے، یہ دشمن ہے کہ جو بوکھلاہٹ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔

یہ دشمن کی بوکھلاہٹ ہے جو فرسٹریشن کو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور غیر مسلح عوام کو نشانہ بنا کر نکال رہی ہے، یہ جنگی بوکھلاہٹ ہے کہ ہر دوسری عورت کو دیکھ کر شاری اور سمعہ کی طرح بارود سے لپٹی خودکش بمبار نظر آتی ہے۔ یہ جنگی بوکھلاہٹ ہے کہ خود بلوچ چادر و چار دیواری کو پامال کر کے عورتوں کے کانوں سے بالیاں نکال کر گھر کے مردوں کے سامنے گھسیٹا جاتا ہے اور جب وہی عورتیں قہر بن کر دشمن پر ٹوٹ پڑتی ہیں تو وہ انہیں مذہبی اور سماجی ویلیوز، روایات اور رسومات کا نام دیکر انہیں غیر اخلاقی عمل قرار دیتے ہیں کہ عورتوں کا استعمال نہ کیا جائے۔ تو ہم آپ پہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ سماج میں عورتیں آج ایک جنسی برابری کیلئے کوشاں نہیں بلکہ جینے کے حق کے متلاشی ہیں۔ جب ظلم اپنی حدوں کو پار کرتی ہے، جب دشمن مسلح اور نہتے میں فرق کو ختم کرتی ہے تو عورتوں اور بوڑھوں اور جوانوں میں تفاوت دم تھوڑ دیتی ہے اور وہ بلا کسی جنسی، سماجی، مزہبی اور آئیڈیا لوجیکل تفریق کے جنگ میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ ایسے میں بلوچ خواتین کی طرف سے خود کو فناہ کرنے کی جستجو اور قوم کی بقاء کیلئے تڑپ ناگزیر بن جاتی ہے، یہ عظیم اور مذبوط حوصلوں کی مالکن کے جہد کا انجام آپکی بوکھلاہٹ اور دماغی شکست پر منتج ہوگی ۔

فرانز فینن ڈیزونینس کو بیان کرتے ہوئے لکھتے پیں کہ انسان جب دو چیزوں کے درمیان کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے اور اپنے پہلے سے قائم شدہ زہنی کیفیت کے خلاف جب وہ ثبوت پاتا ہے تو وہ ایک زہنی کرب اور کشمکش کا شکار ہوتا ہے، جبکہ اسکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے قائم شدہ بیانیے اور کیفیت میں بنا رہے۔ لیکن اسکے بر عکس اگر انسان شعور کی بلندیوں کو جب چھوتا ہے اور وہ انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مجموعی تبدیلی اور بہتری کا سوچتا ہے، اس پہ پختہ یقین رکھتا ہے تو یہ پختگی انسان کو کسی بھی سخت قدم کو بگل گیر کرنے سے نہیں روکتی۔ یہ شعور کی پختگی ہے کہ خود کو پناہ کر کے ایسے سماج اور مستقبل کیلئے خواب کی تعبیر کرنے کو انتخاب کرنے پہ مجبور کرتا ہے کہ جو وہ خود نہیں دیکھ سکتے۔ شاید یہ وہی عشق لا حاصل ہے کہ جسکی خاطر پروانے خوشی خوشی روشنی پہ خود کو نچھاور کرتی ہیں، یہ وہی عشق ہے کہ اپنے قوم کے دکھ اور تکلیف کو خود محسوس کر کے انکے سدباب کیلئے خود کو پناہ کیا جائے۔

جس معاشرے میں اپنے ہی آئین کے تحت طے شدہ حقوق کو مانگنے کیلئے اپنی زبان کو تلخ کر کے روڑوں پہ واو زار کی ضرورت محسوس ہو تو یہ ایک بد ترین اور تیسرے درجے کی شہریت کے ہونے کی نشانی ہے۔ جہاں بندوک بردار خواتین کے سامنے انکے مردوں کو مرغا بنا کر پیٹتے ہوں، اور جہاں لوگوں کی گھریں تک محفوظ نہ ہوں، جہاں مہذب اور خاندانی لوگوں کی سربراہی محلے کے چور اچکوں کو دیا جاتا ہو اور انکا مقصد ہی علاقے کے بڑوں کو بے عزت کرنا ہو تو ایسے سماج میں شہری نہیں بلکہ باغی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے سماج میں آپکو کسی کو برین واش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ انہیں صرف اپنی آنکھوں کو کھلا رکھ کر اپنے ارد گرد زیادتیوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نیلسن منڈیلا کی پارٹی کے چند افراد جب روڑوں پہ ہاتھ میں بینر لئے کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی ان سے کہتا ہے کہ ان مٹھی بھر لوگوں سے آپ کیا حقوق حاصل کروگے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف اپنے حقوق کے تحفظ کا جہد کررہے ہیں ہم اس لئے نہیں کررہے کہ ہمیں اسکی وجہ سے ہمارے حقوق ملیں گے، بلکہ ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ ہمیں مستقبل میں ہماری نسلوں کے سامنے شرمندگی نہ ہو۔

ایسی صورت میں محکوم اقوام کی طرف سے دشمن پہ خود کش اور فدائی حملوں کا ہونا ناگزیر بن جاتا ہے، اور ایسے میں وہ شعور کی للکار کو سن کر اپنے سماج میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاویدان ہوتے ہیں، انکی خوشبو سر زمین کی فضا میں گواڈخ کے پھول کہ مانند حوا میں تحلیل ہوکر معشوقوں کو پر مسرت احساس کا پیغام دیتی رہتی ہے۔ وہیں یہ خوشبو ایک طرف اپنے محکوموں کیلئے ایک خوبصورت احساس ہوتی ہے تو دوسری جانب وہ اپنے دشمن کیلئے ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے کہ جو نقاب پوش عورتوں، نرم کچرے کے ڈھیروں، اور بازاروں میں اکیلے کھڑے انسانوں سے خوفزدہ ہوتا ہے جسکی پرچار وہ بوکھلاہٹ میں اپنے ہی نام نہاد شہریوں کی تذلیل کی شکل میں کرتا ہے۔ یقینا یہ سیاسی اور انقلابی شعور ہے کہ ایک کو خود کو پناہ کر کے امر کرتا ہے اور دوسرے کو زہنی مرض میں مبتلا کرتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں