لاوارث لاش کی شناخت جبری لاپتہ شخص کے طور پر ہوگئی

1029

دو سال قبل لاوارث قرار دیکر دفنائے گئے لاش کی شناخت جبری لاپتہ بلوچ نوجوان کے نام سے ہوگئی ہے، لواحقین نے لاش کی شناخت کرلی جبکہ تدفین آبائی علاقے میں کی جائے گی۔

لاش کی شناخت جنوری 2021 میں خضدار کے علاقے زہری سے جبری لاپتہ ناصر جان قمبرانی کے نام سے ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ نوجوان کو ایک جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا تھا جس کے بعد ان کی لاش سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کی گئی تھی۔

لاش کی شناخت نہیں ہونے کے باعث اس کو لاوارث قرار دیکر کوئٹہ سے متصل مستونگ کے علاقے دشت تیرہ میل قبرستان میں دفن کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق نوجوان کے ورثاء نے معلومات ملنے پر قبر کشائی کرکے نعش کو آبائی علاقے زہری منتقل کیا جہاں آج اسکی تدفین کرکے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے 30 اگست 2021 کو ڈی سی خضدار اور ڈی سی آواران کو ایک لیٹر ارسال کیا جس میں بتایا گیا کہ ناصر فاروق ولد غلام فاروق سکنہ محلہ صادق آباد زہری مارا گیا۔ سی ٹی ڈی نے اپنے لیٹر میں مذکورہ نوجوان کو دہشت گرد قرار دیا۔

جبکہ اسی لیٹر میں مزید تین افراد غلام جان ولد باران سکنہ بائی پاس کوئٹہ، عبدالقیوم ولد زہری خان سکنہ زہری خضدار، کمال خان ولد باہوٹ سکنہ چکی آواران کے مارے جانے کا لکھا گیا ہے۔

اسی لیٹر میں لکھا گیا کہ مذکورہ افراد کو لاوارث قرار دیکر ایدھی کے ذریعے تدفین کی گئی ہے۔

تاہم مذکورہ مارے جانے والے واقعے حوالے سے مزید تفصیلات نہیں مل سکی ہے۔

ٹی بی پی ریکارڈز کے مطابق 5 ستمبر 2021 کو دشت تیرہ میل قبرستان میں تین افراد کی لاشوں کو لاوارث قرار دیکر تدفین کی گئی جبکہ اسی روز مزید 13 افراد کی لاشوں کی ہسپتال میں موجود ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔

12 سال سے لاشیں اگلتی زمین

دشت کا علاقہ کوئٹہ شہر سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کوئٹہ-سبی روڈ پر واقع اس قبرستان میں ڈیڑھ سو کے قریب قبریں ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان سے تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ سنہ 2008 سے شروع ہوا تھا جب قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے۔

جنرل پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک یہ چوتھی حکومت اقتدار میں آئی ہے، لیکن لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ نہیں رک سکا۔

میاں نواز شریف کے دور میں بلوچستان اسمبلی کو یہ بتایا گیا تھا کہ سنہ 2010 سے لے کر 2013 تک بلوچستان سے 612 تشدد زدہ لاشیں ملیں، جن میں سے 373 بلوچوں اور 95 پشتونوں کی تھیں۔

سنہ 2016 میں جیو نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں بتایا گیا تھا کہ ‘بلوچستان سے سنہ 2010 سے 2016 تک 940 تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں 51 فیصد بلوچ اور 22 فیصد پشتون تھے۔’

بلوچستان میں جعلی مقابلے:

بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی کاروائیوں کو مشکوک قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ کئی کاروائیاں میڈیا و متاثرہ لواحقین کے توسط جعلی قرار پائے ہیں تاہم حکومتی وزراء اور حکام ان کاروائیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔

حالیہ کچھ وقتوں سے بلوچ قوم پرست حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستانی فورسز کی جانب سے فوجی آپریشنوں میں عام آبادیوں کو نشانہ بنانے اور جعلی مقابلوں میں جبری لاپتہ افراد کو قتل کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

گذشتہ سال جولائی میں پاکستانی فورسز نے زیارت کے قریب ایک مقابلے میں بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے 9 افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں ان کی شناخت پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کے ناموں سے ہوئی تھی۔

گذشتہ سال بولان میں دس روز تک جاری رہنے والی فوجی آپریشن میں خواتین و بچوں کو زیر حراست رکھا گیا جبکہ آپریشن کے دوران گلہ بانوں کو بھی قتل کیا گیا۔

زیارت واقعے کے خلاف بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین نے پچاس دنوں تک گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا تھا بعدازاں وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ کی یقین دہانی پر کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاج موخر کیا گیا جہاں مظاہرین کو کمیٹی نے یقین دہانی کرائی کہ جبری گمشدگیوں کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے اور زیر حراست لاپتہ افراد جعلی مقابلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔

حالیہ واقعات کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کے تشویش میں اضافہ ہوا ہے جبکہ انسانی حقوق کے تنظیموں سمیت سیاسی جماعتیں حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔