ڈیرہ غازی خان: یورینیم کی دریافت سے اموات تک کا سفر – ٹی بی پی فیچر رپورٹ

1037

ڈیرہ غازی خان: یورینیم کی دریافت سے اموات تک کا سفر

ٹی بی پی فیچر رپورٹ

واھگ بلوچ

پندرہویں صدی کے اوائل میں میر حاجی خان میرانی بلوچ نے ڈیرہ غازی خان شہر کی بنیاد اپنے بیٹے میر غازی خان کے نام پر رکھی جو کہ کئی صدیوں تک بلوچ ریاست کے طور پر مستحکم رہا، جس پر بلوچ قبائل میرانی اور دودائی مختلف ادوار میں حکمرانی کرتے رہے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان پر کئی ادوار میں قبضہ گیروں نے قبضے کی نیت سے چڑھائی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ میر نوری نصیر خان اوّل نےسترہویں صدی میں بلوچ وطن کو ایک فیڈریشن کی حیثیت سے مستحکم کیا تو ڈیرہ غازی خان کو بھی بلوچ فیڈریشن یعنی قلات (بلوچستان) میں شامل کیا گیا جو کہ اٹھارہویں صدی کے اواخر تک برقرار رہا۔

برطانیہ کے قبضے کے بعد بلوچستان کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا، ایک علاقے کو انتظامی حوالے سے افغانستان سے منسلک کیا گیا، بڑے حصے کو ایران اور پاکستان میں تقسیم کر کے بلوچوں کے ایک وحدت کا خاتمہ کیا گیا، جس کی وجہ سے آج تک بلوچ قوم کی آبادی مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے خطے سے جانے کا فیصلہ کیا اور کچھ مہینوں تک بلوچستان کی ریاستی حیثیت پھر سے بحال ہوئی۔ 1948 کو پاکستان کے جبری الحاق کے بعد بلوچستان کی ریاستی حیثیت 1955 کو ختم کر دیا گیا اور بلوچ زمین کو سیاسی اور انتظامی حد بندیوں کی بنیاد پر تقسیم کر کے ڈیرہ غازی خان کو 1951 کو پاکستانی صوبے پنجاب میں شامل کیا گیا۔

ڈیرہ غازی خان کی حد بندیوں کو جیوگرافیک بنیادوں پر دیکھا جائے تو اس کے فطری حدود بلوچستان کے ساتھ وابستہ ہیں اور ڈیرہ غازی خان کے پہاڑوں اور میدانوں میں رہنے والے تمام آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہیں۔

ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کی دریافت

ڈیرہ غازی خان میں ساٹھ کی دہائی میں یورینیم کے ذخائر دریافت ہوئے جس کے بعد پاکستان اٹامک انرجی نے 1977 کو بغلچر میں مائننگ شروع کر دی۔ یہاں سے یورینیم 235U، U238 یورینیم نکالی جاتی ہے جس کو سائنسی زبان میں ییلو کیک کہا جاتا ہے، یہاں سے سالانہ 25000 کلو گرام یورینیم نکالی جاتی ہے۔

کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں مزید یورینیم کا سراغ لگایا گیا ہے اور تقریباً کوہ سلیمان کی پوری پہاڑی سلسلے میں یورینیم کی موجودگی کے آثار پائے گئے ہیں۔

کوہ سلیمان میں آٹھ مائننگ پلانٹس لگائے گئے ہیں جن میں وشافی ،دلانہ، زین ،نگرنائی (راکھی گاج)، سوا پراگ، گوھند اور بغلچر شامل ہیں، یہ پلانٹس ان علاقوں میں لگائے گئے جہاں آبادیاں صرف چند کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔ ان پلانٹس میں کام کرنے والے انجینئرز کے مطابق یہاں سے صرف یورینیم نہیں نکالی جاتی ہے بلکہ یورینیم سمیت کئی ایسی قیمتی دھاتیں نکالی جاتی ہیں جن میں ریڈیم اور پولونیم شامل ہیں۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے سکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے کوہ سلیمان کی پوری پہاڑی پٹی میں زمین دوز راستے بنا کر ان کو ٹنل کی صورت میں سنٹرل نظام سے منسلک کیا ہوا ہے اور ان ٹنلز پر مزید کام جاری ہے جہاں سے یورینیم کو ایک خاص محفوظ جگہ پر منتقل کیا جاتا ہے۔

پاکستان اٹامک انرجی نے ڈیرہ غازی خان کے کئی پہاڑی و شہری علاقوں سے وہاں کے مقامی آبادی کے جانے پر پابندی لگائی ہے اور مقامی لوگوں کو زبردستی اُن کی زمینوں سے بے دخل کردیا گیا ہے اور ان علاقوں میں مختلف قسم کے پروجیکٹ واقع ہیں جہاں سے یورینیم کی افزودگی اور ایٹمی ہتھیاروں کو لانچ کیا جاتا ہے۔

ڈیری غازی خان میں یورینیم کانکنی کے اثرات

کوہ سلیمان سے نکلنے والی یورینیم اور ڈیرہ غازی خان میں ایٹمی تابکاری کی وجہ سے ان علاقوں میں کینسر کی امراض میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، کوہ سلیمان کے مقامی باشندوں کے مطابق یہاں پر کینسر کے بڑھتے واقعات کی وجہ پاکستان اٹامک انرجی کے پروجیکٹس اور ان سے نکلنے والی تابکاریاں ہیں جس سے ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی اموات واقع ہو رہی ہے۔

علاقہ مکینوں کے بقول اٹامک کے پروجیکٹوں کے بعد سے کوہ سلیمان اور ڈیرہ غازی خان کے شہری بون میرو، جگر کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، گردوں، ہڈی کا کینسر، دماغی فالج، چہرے کا ٹیومر ٹیوبر کلوسس اسقاط حمل، جسمانی معذور، آنتوں کے کینسر کا شکار ہورہے ہیں۔

2005 میں بغلچر کے مقامی لوگوں نے کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں ویسٹ مٹیریل کی ڈمپنگ کے خلاف عدالت میں کیس فائل کیا جس پر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے عدالت کو رپورٹ پیش کی تھی مگر اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا اور ریڈی ایشن میں کوئی خاطر خواہ کمی نہ آ سکی، یہاں پر بسنے والے لوگوں نے پاکستان کے مختلف حصوں سے لائے جانے والے ایٹمی فضلہ جات کی ڈمپنگ کے حوالے سے کئی بار تشویش کا اظہار کیا ہے مگر ان کی باتوں کی شنوائی نہ ہوسکی اور نہ ہی اس مسئلے کو سنجیدہ لیا گیا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار سعید لکھتے ہیں کہ کوہ سلیمان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کے لوگوں پر ایٹم بم گراکر انہیں ایک ہی دفعہ مار دیا گیا لیکن کوہ سلیمان میں ہمارے نسل در نسل کے مرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے، جب انہوں نے مقامی عدالت میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے نمائندوں سے اس بارے میں دریافت کیا تو اٹامک انرجی کمیشن کے نمائندوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ وہاں پر مختلف علاقوں سے مواد لاکر ڈمپ کیا جارہا ہے لیکن انہیں زیر زمین ڈھانپا جا رہا ہے جس کے علاقے پر کوئی تابکاری کے اثرات نہیں پڑتے لیکن کوہ سلیمان کے باشندے اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان کے ڈاکٹر محمد ارشد جو کہ لاہور میں آنکلوجسٹ ہونے کے ساتھ سرجیکل آنکولوجی شعبہ کے سربراہ ہیں ان کے مطابق ڈیرہ غازی خان اور کوہ سلیمان کے علاقوں میں کینسر کی شرح لاہور کی نسبت بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی ان علاقوں میں کسی قسم کی صحت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

اٹیمی سائنس کے ماہر کارکن ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے خیال میں اس خاموشی کی وجہ یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور اس کے گرد و نواح کے لوگوں میں یورینیم کی کان کنی کے بارے میں جائز خدشات کو ہمیشہ قومی سلامتی کے نام پر دبایا جاتا ہے، ان کے مطابق اس وجہ سے علاقائی لوگوں میں یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ اس مسئلے پر بات کر نے سے پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے ناخوشگوار ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اسی ضمن میں وہ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہیں کہ جب سنہ 2000 میں انہوں نے اپنے چند ساتھیوں سمیت اس علاقے کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا جہاں سے یورینیم نکل رہی ہے تاکہ وہاں اس کے اثرات کا جائزہ لے سکیں لیکن انہیں وہاں جانے سے روک دیا گیا تھا۔

مارچ 2021 میں ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں معدے اور آنتوں کے ماہر کے طور پر تعینات ہونے والے ڈاکٹر ہدایت نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ سینکڑوں مریضوں کا اب تک میں نے یہاں معائنہ کیا ہے، ان میں بالترتیب 60 سے 80 فیصد لوگ جگر اور کینسر کا شکار ہیں جو کہ باقی شہروں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ہدایت کی مطابق ڈیرہ غازی خان میں ان بیماریوں کے تناسب بلند ہونے کی ممکنہ وجہ یورینیم کی کانوں کے گرد نواح میں واقع دیہات کے لوگ یورینیم زدہ پانی کا استعمال کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ڈیرہ غازی خان میں چھوٹے چھوٹے بچے اور جوان لوگوں کی بڑی تعداد میں جگر کے امراض اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں حالانکہ ان کے بقول عام طور پر یہ بیماریاں بڑے عمر کے لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں۔

ڈیرہ غازی خان میں واقع غازی میڈیکل کالج کینسر کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرنے کے لئے تیار ہوئے، انہوں نے کوہ سلیمان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ان امراض کی پھیلنے کی وجہ آلودہ پانی اور آب و ہوا کو قرار دیا۔ اس آلودگی کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورینیم کی کان کنی کے بعد اسے صاف کر کے ایسے ڈھیلوں کی شکل دی جاتی ہے جسے پیلا کیک کہا جاتا ہے ان کے بقول جب یہ خشک ہو جائے تو ان کے چھوٹے چھوٹے ذرات علیحدہ ہو کر پانی اور ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جہاں سے وہ انسانی جسم میں شامل ہو جاتے ہیں۔

یورینیم کی کان کنی اور استعمال کے ذمہ دار وفاقی ادارے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا ہمیشہ سے یہ اصرار رہا ہے کہ بغلچر کی کانوں سے نکالا جانے والا یورینیم کسی بھی طبی مسئلے کا باعث نہیں بن رہے ہیں، ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یورینیم کو کانوں سے نکالتے ہوئے اور اس کو صاف کرتے وقت بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی سخت پابندی کی جاتی ہے

کمیشن کے عوامی تعلقات کے منیجر شاہد ریاض کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ نہ صرف سائنسی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے یورینیم کی کان کنی کرتا ہے اور اس کی صفائی کے دوران پیدا ہونے والے فضلے کو بہترین انداز سے ٹھکانے لگاتا ہے بلکہ ان کے مطابق کمیشن اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے بغل چر کے لوگوں کو صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اُن کا اصرار ہے کہ کوہ سلیمان سے یورینیم کی کان کنی سنہ 2000 سے روک دی گئی ہے اس لئے اہل علاقہ اور ڈاکٹروں کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یہ عمل مقامی آبادیوں میں کینسر اور جگر کے امراض میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

تاہم 2021-22 کا وفاقی بجٹ ان کی آخری دعوے کی تردید کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس میں کوہ سلیمان سے یورینیم کی کان کنی کے لئے 14کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

شاہد ریاض کہتے ہیں کہ کوہ سلیمان کے علاقے بغلچر میں پائے جانے والی یورینیم کی کیمیائی ساخت اس طرح کی ہے کہ اسے اٹیمی ہتھیاروں میں استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس سے صرف ادویات اور بجلی بنائی جاسکتی ہے اس بنیاد پر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس یورینیم کے انسانی ماحول اور صحت پر نقصانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

پرویز ہود بھائی، شاہد ریاض سے متفق نہیں ہیں اگرچہ وہ مانتے ہیں کہ بغلچر میں زیادہ تر یورینیم 238 پایا جاتا ہے جو کے عام طور پر ادویات اور بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ ان کی ساخت یورینیم 235 جیسی ہوتی ہیں اس لیے ان کی نظر میں یہ دونوں اقسام انسانی صحت اور ماحول کے لیے ایک ہی طرح خطرناک ہیں۔

پرویز ہودبھائی کی بات کی تصدیق 1990 میں ہونے والی امریکی اور عراق جنگ سے بھی ہوتی ہے، جس کے ختم ہونے پر بہت سے امریکی فوجی شدید سر درد، جگر کی خرابی، گردوں کی سوزشِ جیسی بیماریوں کا شکار ہو گئے تھے جب ماہرین صحت نے ان کی بیماری کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا یہ اثرات یورینیم 238 کے پیدا کردہ ہیں، جو ان میزائلوں میں استعمال کئے گئے تھے جنہیں جنگ کے دوران عراقی ٹینکوں کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ اور اس اتحادی افواج نے فائر کئے تھے۔

آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل حمید گل کی باتیں پرویز ہود بھائی اور شاہد ریاض کے خیالات سے مختلف ہیں اور ان کی باتوں سے پرویز ہود بھائی اور شاہد ریاض کے کچھ باتوں کی تردید بھی ہوتی ہے، انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بغلچر کے یورینیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ڈیرہ غازی خان کے علاقے بغلچر کے مقام سے یورینیم نکالی گئی تھی۔

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن بغلچر کے پروجیکٹ منیجر یعقوب چوہان کو 1989 میں رہی سند کے مقام پر جب مار دیا گیا تھا، جسکے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے بغلچر اور دوسرے پلانٹس کو فعال رکھنے اور سکیورٹی تھرٹ کی وجہ سے بغلچر پلانٹس کے چاروں اطراف باڑ لگانے کا عمل شروع کیا جو اب بھی جاری ہے۔

کوہ سلیمان کی پوری پہاڑی سلسلے میں تمن قیصرانی سے لے کر تمن کھوسہ تک صحت کے سہولیات کا فقدان ہے۔ اٹامک انرجی کمیشن کی طرف سے دو بی ایچ یو بنائے گئے ہیں زین اور رونگھڑ کے مقام پر لیکن وہاں کسی قسم کے بنیادی ادویات اور ڈاکٹر موجود نہیں ہیں۔ کوہ سلیمان کے باشندوں کے پاس بجلی، روڈ، پانی، اسکول، کالجز، صحت جیسی سہولیات موجود نہیں اگر ان کے لئے آواز بلند کی جائے تو مقامی سرداروں اور ایجنسیوں کی جانب سے ان کو خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کوہ سلیمان اور اس کے گردونواح میں کینسر کی امراض کی بلند ترین شرح کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعت بلوچ راج نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور ڈیرہ غازی خان میں بڑھتی کینسر کے اثرات اور صحت کے حوالے سے ایک آگہی مہم کا آغاز کیا، جس میں لوگوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا لیکن پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور خفیہ اداروں کی جانب سے ان کو ڈرانے و دھمکانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ تونسہ شریف و ڈیرہ غازی خان میں ان لوگوں کی پروفائنگ کی جارہی ہے اور اُن کو ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کے تھانوں میں طلب کیا گیا تھا۔

بلوچ راج کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اُن سے کہا گیا کہ تابکاری اثرات اور کینسر کے خلاف اپنی مہم کو بند کر دیں اور بند نہ کرنے کی صورت میں سخت سے سخت نتائج کی دھمکی دی گئی۔

تونسہ شریف کے ایک مقامی تنظیم بزدار اتحاد کو بھی کینسر کے خلاف احتجاج کرنے سے روک دیا گیا اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔

پاکستان اٹامک کمیشن اور حکومت اپنے ذمہ داریوں سے غافل ہیں، ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے کسی بھی ہسپتال میں کینسر کے وارڈ نہیں ہیں۔ کینسر کے اعداد و شمار کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر احسن اعوان نے بتایا کہ ان کے پاس کینسر کے مریضوں کی تعداد موجود نہیں ہے۔ کینسر کے اموات کی سرکاری سطح پر اعداد و شمار کو چھپایا جارہا ہے تاکہ اس سنگین مسئلہ کو ابھرنے سے روکا جاسکے۔

یورینیم کے کانکنی کے لئے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے قوانین

دنیا کے جس ملک میں بھی یورینیم کے پروجیکٹ چل رہے ہیں اُن کے لیے آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کی بک آف انٹرنیشنل لا میں مختلف قسم کی قوانین موجود ہیں جو نیوکلیئر ہتھیاروں کی حفاظت کے علاوہ انسانی صحت کی ضمانت دیتے ہیں، جس کی ایک شق میں واضح لکھا ہے کہ حکومت کو پروجیکٹ ایریاز کے اندر کام کرنے والے ملازمین کے علاوہ قریب و جوار کے عام آبادی کو بھی تابکاری کے اثرات سے بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی بک آف انٹرنیشنل لا کے شق نمبر 1.5 میں لکھا ہے فضائی اور پانی کے آلودگی کے علاوہ وہاں کے جنگلی جانوروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جانا پی اے ای سی کی ذمہ داری ہے۔

شق نمبر 8 میں لکھا ہے کسی بھی مائنز سے نکلنے والے تابکار فضلا مواد کسی دوسری جگہ کی ریڈیو ایکٹو فضلہ جات سے مختلف نہیں ہیں، کان کنی کے فضلے کی زمین کی سطح کے اوپر ایک بڑی مقدار میں موجود ہونے سے زیادہ سے زیادہ تابکار شعاعوں کا موجد بنتی ہیں، اس لیے قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ اس بات کو سائنسی بنیادوں پر یقینی بنایا جائے کہ جن کمپنیوں کو ویسٹ مٹیریل مینجمنٹ کی لائسنس دی جائے کہ وہ ان ویسٹ مٹیریل کو ٹھکانے لگانے اور تابکار شعاعوں سے حفاظت کےلئے مناسب اقدامات کرے گی۔

کمپنی کی ذمہ داری ہوگی کہ کان کے نزدیکی علاقوں کے آبادیوں کی حفاظت نہ صرف کان کنی کے دوران کی جائے بلکہ کسی بھی علاقے میں کان کی بند ہونے کے بعد بھی اس علاقے کی عوام اور وہاں کی ماحول کو تابکار شعاعوں سے بچانے کی کوشش کریں اور گزشتہ ویسٹ مٹیریل کو کانوں سے نکال کر کانوں کی صفائی کی جائے اور زیر زمین پانی میں سے ہیوی میٹلز کے خاتمے کے لئے ان علاقوں میں پلانٹس لگائے جائیں۔

دنیا میں تابکاری اور اس سے ہونے والی تباہیاں

26 اپریل 1986 کی صبح چرنوبل ایٹمی پلانٹ کے ریکٹر پر ایک تجربہ کیا جا رہا تھا کہ تجربے کے دوران وہاں ٹمپریچر بڑھنا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں پلانٹ میں بھاپ جمع ہوئی جس کے نتیجے میں ریکٹر دھماکے سے پھٹ گئی جس میں 30 افراد موقع پر ہلاک ہو گئے۔

ریکٹر کے تباہ ہونے کے نتیجے میں ایٹمی تابکاری چرنوبل کے قریبی شہروں میں پھیل گئی اور پلانٹ کو آگ لگ گئی، انتظامیہ نے ہیلی کاپٹر کی مدد سے آگ پر قابو پانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ شہر خالی کروانے کا حکم دیا گیا اور وہاں کے مکین آج تک واپس نہ جاسکے۔ تابکاری کے اثرات ہوا کے ذریعے یوکرین، بیلاروس، روس اور مشرقی پورپ کے علاوہ مغربی پورپ کے بڑے حصے تک پہنچے۔ ہزاروں کارکنوں کو حادثے کے مقام پر امدادی کارروائیوں کے لیے بھیجا گیا جنہوں نے تباہ شدہ پلانٹس کو ڈھانپ کر تابکاری کے اثرات کم کرنے کی کوشش کی مگر سب کچھ ناکام رہا اور جن افراد نے تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیا بعد میں وہ بھی بیمار پڑ گئے۔

بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق چرنوبل حادثے کے بعد ریڈیائی لہروں کے اثرات سے چار ہزار لوگ کینسر کے شکار ہوئے۔ ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے ادارے گرین پیس کی جانب سے 2006 کو سامنے آنے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک لاکھ سے زائد لوگ اس حادثے سے متاثر ہوئے جن میں یوکرائن، روس اور بیلاروس کے شہری شامل ہیں۔

تابکاری کے باعث سوویت یونین نے چرنوبل کے قریب 30 کلومیڑ کے علاقے کو انسانی آبادی کے لیے خطرناک قرار دیا تھا جب کہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ علاقے جوہری آلودگی کا شکار ہوئے تھے۔

دنیا بھر میں ایٹمی حملوں اور اس کے تابکاری اثرات سے بچانے کے لیے پناہ گاہیں بنائی جاتی ہیں، جنہیں فال آؤٹ شیلٹر کہا جاتا ہے۔ ریڈ کراس سوسائٹی جیسے ادارے ہر طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن تیاری کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ جوہری حملے کے اثرات تیاری سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

اختتامیہ

دنیا بھر میں جوہری پروجیکٹ سے نکلنے والی ریڈی ایشن سے وہاں کے انسانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے مختلف قسم کے حفاظتی تدابیر کے انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ تابکار شعاعوں سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچا جا سکے مگر بغلچر کے کانوں میں ویسٹ مٹیریل کو ڈرموں میں ڈال کر پانی میں کھلا چھوڑ دیا جسکی وجہ سے ویسٹ مٹیریل زیر زمین پانی کا حصہ بن کر ہیوی میٹلز اور ریڈی ایٹڈ پانی کا باعث بن رہی ہے۔

ڈیرہ غازی خان اور قریب و جوار کے علاقوں میں شہری بون میرو ،جگر کا کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، گردوں، ہڈی کی کینسر، دماغی فالج، چہرے کا ٹیومر، ٹیوبر کلوسس، اسقاط حمل، جسمانی معذوری، انتوں کا کینسر کا شکار ہورہے ہیں اگر ڈیرہ غازی خان میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی طرف سے مختلف علاقوں کے لوگوں اور ماحول کو یورینیم کے تابکاری اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے جلد اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو شاید ہی تونسہ شریف ،ڈیرہ غازی خان اور کوہ سلیمان میں کے باسی اوسط عمر تک بھی پہنچ سکیں۔