ڈیرہ غازی خان کے باشعور طلباء – محمد عمران لہڑی

522

ڈیرہ غازی خان کے باشعور طلباء

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان سیاسی شعور کے لحاظ سے کافی ترقی یافتہ خطہ ہے۔ یہاں کے حالات اور واقعات نے ہر بچے کی سیاسی اور شعوری پرورش کی ہے۔ پھر بی ایس او جیسے تنظیم نے تو یہاں کے ہر طبقہ فکر کو قومی شعور اور نیشنلزم کے الف بے سے واقف کیا ہے۔ اس خطے کی تاریخ کو پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ یہاں کے زمینی واقعات اور بلوچ قوم کے رویے نیشنلزم کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ بلوچ قوم نے ہر دور میں زیادہ توجہ اپنے زمین اور قوم کی طرف مرکوز کی ہے۔ اب بلوچستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے باشندوں نے اپنے زمین کی دفاع میں دنیا کی طاقتور سے طاقتور ترین قوموں کا سامنا کیا ہے لیکن اپنے زمین کے دفاع سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اس قومی اور سیاسی شعور سے ہر بلوچ واقف ہے اور آج بھی دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔

بلوچ طلباء تعلیمی اداروں میں اپنے تعلیمی کیریئر کے ساتھ اپنے قومی شعور کو بھی اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔ 1967 میں جب بی ایس او کو باقاعدہ ایک طلباء تنظیم بنائی گئی، بلوچ تعلیمی اداروں میں باقاعدہ اپنے سرکلز میں اپنے زمینی، قومی، سماجی اور سیاسی حالات کو زیر بحث لاتے اور ہر نوجوان کو بلوچ قوم پرستی کے نظریہ سے آشنا کراتے۔ ان سرکلز نے بلوچ قوم کی قومی شناخت کو مضبوط کرتے ہوئے نوجوان نسل کی سیاسی اور فکری طور پر تربیت دیتے رہے جو آج تک جاری ساری ہے۔

آج بلوچ جہاں بھی آباد ہے اپنے قومی پہچان کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی شعور اور سیاسی تربیت کیلئے باقاعدہ سرکلز اور دیوان کا اہتمام کرتے ہیں۔ آج بلوچستان اور بلوچ قوم کی حالات انتہائی نازک موڑ سے گزر رہے ہیں۔ بلوچ کی قومی شناخت کو خطرہ ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو لاپتہ کرنا، باشعور طبقے کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانا، قبائلی جنگوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑھانا، منشیات کو عام کرنا جیسے خطرناک منصوبے بلوچ قوم کی قومی پہچان کیلئے زہر قاتل ہے۔

آج بلوچ طلباء کے سیاسی سرکلز سے بھی کچھ طبقے خائف ہیں۔ یقیناً وہی بلوچ کو سیاسی شعور سے بانجھ کرنا چاہتے ہیں جو بلوچ کو غلام اور جاہل رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے سرکل پر انتظامیہ اور ریاستی اداروں نے دھاوا بول کر طلباء کو ہراساں کیا۔ یہ انتہائی تعلیم دشمن پالیسی ہے جس سے طلباء کے سیاسی اور قومی شعور کو روکنے کی ناممکن کوشش ہے۔ یہ طلباء کا بنیادی حق ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اپنے لیے نصابی اور غیر نصابی سیاسی سرگرمیوں کا اہتمام کریں۔

ڈیر غازی خان کے بلوچ طلباء کو اس طرح تعلیمی اداروں میں ڈرانا دھمکانا انتظامیہ کی نسلی تعصب کو آشکار کرتی ہے۔ نسلی نفرت اس انتہا تک پہنچ گئے کہ جو استاد ان کے حق میں دو کلام پیش کیا اسے بھی نوکری سے بیدخل کردیا گیا۔ اب بلوچ قوم کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ ان حالات میں اپنی قومی تشخص اور اپنے نوجوانوں کیلئے تعلیمی اداروں میں سازگار ماحول بنانے کیلئے کیا حکمت عملی اپنا چاہیے۔ بلوچ قومی پہچان اور شعور کو مٹانے کیلئے طاقتور طبقے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے لیکر گوادر تک، ڈیر بگٹی سے لیکر خاران دالبندین تک تمام بلوچ طلباء یکجا ہوکر ان گھناؤنی حرکتوں، پالیسیوں کو ناکام بنائے اور قومی شعور کو اجاگر کرے۔ آج ڈیر غازی خان یونیورسٹی سے بلوچ طلباء کو بیدخل کردیا گیا پھر کل آہستہ آہستہ تمام تعلیمی اداروں سے بلوچ قوم کے نوجوانوں کو دور کردیا جائے گا۔ اس پر سیاسی، سماجی اور طلباء آرگنائزیشنز کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا اور آئندہ لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں