چین کی تائیوان کے ’اہم اہداف‘ کو نشانہ بنانے کی فرضی مشقیں

197

تائیوان کے قریب تیسرے روز بھی چین کی جنگی مشقوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں ہتھیاروں کے ساتھ جنگی طیارے اور طیارہ بردار جنگی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ تائیوانی صدر کے دورہ امریکہ پر مشتعل ہو کر چین نے یہ جنگی مشقیں شروع کی ہیں۔

چین نے ‘جوائنٹ سورڈ’ کے نام سے جنگی مشقوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ چینی فوج کے مشرقی کمان کے حوالے سے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے پیر کے روزبتایا کہ”ہتھیاروں کے ساتھ ایچ 6 کے جنگی طیاروں نے جنگی مشقیں کیں… انہوں نے جزیرہ تائیوان میں اہم اہداف پر متعدد فرضی حملے کے۔ آج کی مشق میں شانڈونگ طیارہ بردار جہاز نے بھی حصہ لیا۔”

تائیوان کی وزارت دفاع نے پیر کے روز بتایا کہ اس نے تائیوان کے اطراف میں 70 چینی فوجی طیاروں اور 11جنگی جہازوں کاپتہ لگایا ہے۔

وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے آبنائے تائیوان سے گزر کر فضائی دفاعی زون میں داخل ہوجانے والے 35 طیاروں کا پتہ لگایا۔ یہ مشقیں تائیوان کے ماتسو جزیرے سے تقریباً 80 کلومیٹر دور چین کے فیوجیان صوبے کے قریب سمندروں میں ہو رہی ہیں۔

جاپان کی وزارت دفاع نے بھی ان فوجی مشقوں کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعے سے اتوار کے درمیان چینی جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے 140 مرتبہ پروازیں کیں۔ یہ مشقیں جاپان کے میاکو جزیرے سے 230 کلومیٹر کے دائرے میں ہو رہی ہیں۔

اس جنگی مشق کا مقصد کیا ہے؟

چین کی سرکاری میڈیا کے مطابق ‘جوائنٹ سورڈ’ کے نام سے ہفتے کے روز شروع ہونے والی اس جنگی مشق میں ‘جزیرے کے ارد گرد گشت اور اہم اہداف پر مشترکہ ٹھیک ٹھیک حملوں’ سمیت تائیوان کے ارد گرد گھیراو اور ممکنہ حملوں کو روکنا شامل ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چینی فوج نے تائیوان کے ارد گرد سمندر میں بحری جہاز، لڑاکا طیارے اور میزائل پہنچا دیے ہیں تاکہ “تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کو سخت انتباہ” بھیجا جاسکے۔

تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور  آزادانہ حکومت قائم ہے لیکن چین اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس نے ایک دن اسے دوبارہ حاصل کرنے کے عزم کا بارہا اعادہ کیا ہے۔ بیجنگ تائیوان اور غیر ملکی حکومتوں کے درمیان کسی بھی سرکاری رابطے کو پسند نہیں کرتا۔

تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے حالیہ دورہ امریکہ نے چین کو مشتعل کردیا تھا، جہاں انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر کیون میکارتھی اور دیگر سیاست دانوں سے ملاقات کی تھی۔

چینی وزارت خارجہ نے اس ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ اس دورے کے خلاف “ٹھوس اور موثر اقدامات” کرے گا۔

امریکہ کا ردعمل

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر جاایان چونگ کا کہنا ہے کہ چین کی حالیہ مشقیں “تائیوان کو نشانہ بنانے والے دباو کے وسیع تر اقدامات کا حصہ ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ “بڑے دوروں سے بیجنگ کو تائی پے، واشنگٹن یا دیگر ملکوں پر الزام لگانے کا موقع ملتا ہے۔”

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وہ صورت حال پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے اور بیجنگ کو چاہئے کہ سائی کے دورے کو “حد سے زیادہ ردعمل یا کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال نہ کرے۔”

تائیوان میں امریکی سفارت خانے نے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “وہ تائیوان کے ارد گرد چین کی مشقوں کی نگرانی کر رہے ہیں، خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے اور قومی سلامتی کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے امریکہ کے پاس کافی وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں۔”

چینی فوجی مشقیں ’حملے کی تیاری‘ ہیں، تائیوان

تائیوان کی وزارت دفاع نے فوجی مشقوں پر اپنے ردعمل میں کہا کہ “تائیوان کی افواج تنازع میں اضافہ نہیں کریں گی اور نہ ہی تنازعات پیدا کرنے کا سبب بنیں گی، چین کی ان جنگی مشقوں کا مناسب انداز میں جواب دیا جائے گا۔”