ماہل بلوچ کی میڈیا ٹرائل صحافتی اخلاقیات و انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پانک

166

بی این ایم کے انسانی حقوق کے ادارے پانک کے ترجمان نے جاری بیان میں کہاہے کہ پاکستانی صحافی ماریہ ذوالفقار خان کے اسکرپٹڈ انٹرویو کو نشر کرنے کے عمل نے ماہل بلوچ اور اس کے خاندان کو مزید خطرات میں ڈال دیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف صحافت میں غیر جانبداری اور انصاف پسندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ان افراد کے تحفظ اور سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں جن کے ساتھ پہلے ہی غیر منصفانہ سلوک کیا جاچکا ہے۔

پانک کے رپورٹ مطابق یہ ضروری ہے کہ میڈیا پر فرد کی رازداری اور وقار کا احترام کرے اور زبردستی اعترافی بیانات کی رپورٹنگ یا نشر کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح کی انٹرویو منعقد کرنا اور انکو نشر کرنا ان افراد اور ان کے خاندانوں کو مزید اذیت اور ہراساں کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

“منصفانہ قانونی نظام میں جبری اعترافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ معلومات یا اعترافات حاصل کرنے کے لیے تشدد کا استعمال نہ صرف اخلاقی طور پر منافی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ جیسا کہ اقوام متحدہ کا تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف کنونشن، جس کی توثیق پاکستان نے 2010 میں کی تھی، واضح طور پر اعترافات لینے کے لیے تشدد کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے۔”

پانک کا کہنا ہے کہ ماہل بلوچ کے کیس کی سنوائی تشویشناک ہے، جسے کوئٹہ میں اس کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا اور اسے غیر قانونی حراست کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ماھل بلوچ کے خلاف من گھڑت الزامات، یہ دعویٰ کرنا کہ اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ کے باوجود اس کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہوا، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

“کیس فرد کے ساتھ یہ ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کے خلاف بھی ہے۔”

ترجمان نے کہاہے کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایسے اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے اور ذمہ داروں کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ پاکستان کو بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری کے پابند کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ماھل بلوچ کو فوری اور غیر مشروط رہا کیا جائے گا –

انھوں نے کہاہے کہ ہمیں جبری اعترافی بیانات اور تشدد کی مذمت میں ایک ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تمام افراد کے انسانی حقوق کا احترام کریں، چاہے ان کے حالات کچھ بھی ہوں۔ ان اقدار کو برقرار رکھ کر ہی ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جو سب کے لیے منصفانہ، اور مساوی ہو۔