امن کے نام پر پشتونوں کو برباد ہونے نہیں دینگے – منظور پشتین

267

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ وزیراعظم ‏شہباز شریف کے اجلاس میں فوجی آپریشن کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستانی میڈیا میں بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ گویا پختونخوا میں دہشتگردی اڈے اور پھر آپریشن کی ضرورت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگرد تنظیمیں ریاست نے خود بنائیں اور پشتونوں کو تباہ کرنے لئے استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‏حکومت آنے والے الیکشن کے لئے اور فوجی جنرل کاروباری جنگ کے لئے پشتونوں کے خون سے ایک جنگی بیانیہ بنارہے ہیں تاکہ آئندہ واقعات سے پہلے عوام ذہنی طور پر تیار ہوں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی صورت پشتون وطن کو دوبارہ ڈالری جنگوں اور پولیٹیکل و اسٹراٹیجکل انجنئیرنگ کے لئے استعمال نہیں ہونے دینگے۔

منظور پشتون نے کہا کہ پچھلے 20 سال فوجی آپریشنوں کے نتائج یہ ہیں کہ فوجی جنرلوں نے اربوں ڈالر کمائے بڑے بڑے کمانڈر جیسے احسان اللہ احسان وغیرہ کو بنگلے دیئے گئے اور فرار کروایا گیا جبکہ پشتونوں کے 2 لاکھ سے زائد مسمار گھر، درجنوں بازاریں مکمل ملیامیٹ، 80 ہزار سے زائد شہید، لاکھوں زخمی اور معزور کیے گئے، وسائل پر قبضہ کیا گیا، ہزاروں لاپتہ افراد، لینڈ مائنز، بدامنی، ٹارگٹ کلنگ، گڈ بیڈ اور ایسے سینکڑوں آفتیں برپا کر دی گئیں۔

منظور پشتون نے کہا کہ یہ ڈرامے بند کرنے ہونگے، پانچ بندوں سے حالات خراب کر کے پھر امن کے نام پر آپریشن کر کے پشتونوں کو برباد کرنا، انکے وسائیل لوٹنا اور اسی نام پر بیرونی امدادیں حاصل کرنے کے ڈرامے ہم نہیں چلنے دیں گے۔ انہوں نے کہا مزید کاروباری جنگیں ختم کئے جائیں۔

خیال رہے گذشتہ دنوں پاکستان کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف ‘جامع آپریشن’ کی منظوری دی گئی۔

جمعے کو قومی سلامتی کمیٹی کا 41 واں اجلاس وزیراعظم ہاﺅس میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزرا، چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور متعلقہ اداروں کے اعلٰی حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کر دیا گیا۔‘

’واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن و استحکام منتشر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔‘

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس نے جامع قومی سلامتی پر زور دیا جس میں عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت قرار دیا گیا اور فورم کو بتایا گیا کہ حکومت اس ضمن میں اقدامات کر رہی ہے۔

’اجلاس میں ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی۔ پاکستان سے ہر طرح اور ہر قسم کی دہشت گردی کے ناسُور کے خاتمے کے لیے اِس مجموعی، ہمہ جہت اور جامع آپریشن میں سیاسی، سفارتی سکیورٹی، معاشی اور سماجی سطح پر کوششیں بھی شامل ہوں گی۔ اس سلسلے میں اعلٰی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل بھی دی گئی جو دو ہفتوں میں اس پر عمل درآمد اور اس کی حدود و قیود سے متعلق سفارشات پیش کرے گی۔‘

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں مقتدر انٹیلی جنس ایجنسی کے کامیاب آپریشن کو بہت سراہا گیا جس میں انہوں نے انتہائی مطلوب بلوچ آزادی پسند رہنماء گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا۔