شهید میجر پیرک کا نظریہ ۔ شاه نذر بلوچ

472

شهید میجر پیرک کا نظریہ

تحریر: شاه نذر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

 

ہم ایسی شخصیات کی زندگیوں اور طرز ہائے قیادت پر مختصر سی نظر ڈالیں گے جنہوں نے لیڈرشپ سیاسی جدوجہد اور جنگی محاذ کے میدان میں نئی تاریخ رقم کی اور اپنے عہد کا عنوان بن گئے۔ اس کا آغاز ہم اس مبارک ہستی کے نام سے کر رہے ہیں جسے بلاشبہ تاریخ میں اس نام سے جانا جاتا ہے۔ میجر نورا عرفے پیرک۔

جن سے لیڈرشپ کی توقع رکھی جاتی ہے، ان کا اس عمل سے گزرنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسا کرنا اور ہونا عین ممکن ہے۔ اس کی بنیادی ضرورت ’’تعلیم ‘‘ ہے جس کا آغاز پڑھنے، لکھنے اور بولنے (یعنی اظہارِ خیال) سے ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جا سکتا ہے ایک تعلیم دوست انسان اور آخر میں گوریلا کمانڈر اور ایک نڈر لیڈر جو آج تک کئی لوگ اس کے اظہار خیال سے آگے بڑھ رہے ہیں ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے اس نے تعلیم کو اپنا بنیادی مقصد رکھا۔ 

تعلیم انسانوں کا اثاثہ اور ان کا بنیادی حق ہے۔ اسے تباہ نہیں کرنا چاہئے اور اسے حاصل کرنا فرض ہے، وہ ہر وقت اپنے دوست اور سنگت جو محاذ میں ان کے ساتھی تھے، ہر ایک کو استاد کی طرح درس دیتے ان کو ان کے ساتھ ایک دوستانہ ماحول میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ان کو تعلیم سے آگاہی اور جنگی حربہ استعمال کرنے دوشمن سے نمٹنے کا طریقہ جو اس نے جنگی محاذ میں اپنے مہارت سے سیکھا تھا اپنے دوستوں کو ان سے آگاہ کرتے لہٰذا ایک لیڈر کی شخصی تعمیر کے لئے تعلیم یعنی علم کا حاصل کرنا لازم ہے۔ علم کا مطلب ہے بنیادی تعلیم، تجربہ اور مشاہدہ۔ اپنی پہچان بنانے کے لئے علم کا اظہار کرنا ضروری ہے اور اظہارِ علم، توسیع علم کا ایک طریقہ بھی ہے۔

ابتدائی تعلیم کا آغاز اس نے پروم جائیں سے حاصل کیا مزید تعلیم کیلئے اس نے پنجگور کویٹہ اور پنجاب کے شہر لاہور کا رخ کیا مگر دشمن کو اس بات کا گورا نہیں ہوا کہ ایک بلوچ تعلیم اور شعور یافتہ ہو جائے، اس کو ایک مرتبہ لاپتہ کیا گیا، پنجاب کے شہر لاہور سے اور کمٹمنٹ کے زریعے اسے دوبارہ رہا کیا گیا کہ وہ اپنے عزیز اور ہم فکری او ہم نظریہ دوست ذاکر مجید کے خلاف بیان دے مگر وہ اپنے نظریے پہ پختہ اور ڈٹا رہا وہاں سے اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کو ایک مزاحمتی جدوجہد میں بدل دیا۔

 نورا ایک ایسا لیڈر تھا، آج تک تاریخ اسے یاد کیا کرتا ہے اس نے اپنا علم اور اپنا سیاسی نظریہ اور قومی سوچ بلوچ اسٹوڈنٹ ارگنازیشن آزاد سے حاصل کیا تھا، بی اس او نے اسے سیاست کے ساتھ ساتھ ایک گوریلا کمانڈر بھی بنایا۔سیاست کے دوران وہ

 بی ایس او آزاد کا صدر بھی رہا ہے اس کی قابلیت شعور علم کی گہرائی اتنا وسیع بن گیا تھا کہ سیاسی اور قومی شعور نے اسے ایک مزاحمتی راستہ اختیار کرنا پڑا جو آج تک قابل فخر ہے۔ 

وہ ہر جگہ اور ہر مقام پر عدل و انصاف کا علمبردار بھی رہا ہے۔ زندگی کے ہرشعبہ ٔ حیات میں حق و صداقت اور سچائی کی طرف رہنمائی بھی کی۔ 

 وہ ظالموں اور شہ زوروں کی حکمرانی کے خلاف تھا۔غریب، پس ماندہ اور کچلے ہوئے افراد کو ستانا اور ان پر ظلم و بربریت حکمران ان کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ اس نے ہمت اور حوصلہ کو آگے رکھ کر ظالموں کے خلاف آواز اٹھاتے اور آخر کار ایک جنگی محاذ پر اپنا کام سر انجام دینا شروع کیا کے اپنے آنے والے نسل کو ایک اچھی زندگی میسر کرے اور ان کو غلامی کے زنجیروں سے آزاد کرسکے ۔

وہ ذاتی مفادات کو چھوڑ کے ایک اجتماعی مفاد اور ایک اجتماعی سوچ کو آگے لے کے جا رہا تھا، اس کے پیچھے ایک لشکر جو اسی سوچ اور اسی اظہار خیال سے آگے بڑھ رہے تھے کہ دشمن کو حیران اور پریشان کرتے جو راستہ اپنایا تھا وہ بڑا غیر ہموار، طویل اور سست ہونے کے باوجود بے حد ٹھوس تھا۔ اس کے باوجود اس نے یہ کھٹن راستہ اختیار کیا تھا کہ بلوچ سرزمین کے مالک بلوچ خود ہونگے۔ بلوچ سرزمین پر دشمن کو کبھی سکون سے رہنے نہ دیا جائے گا۔

نورا نے بلوچستان کے مختلف جگہوں میں اپنا قومی کام سر انجام دیا اور مختلف محاذوں پر دلیری سے مقابلہ کیا اور دشمن کے دلوں میں خوف کو بٹھایا۔ خود اس نے خوف کو محسوس نہیں کیا اسے یقین تھا کہ اس کے سپاہی دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور آخر اس کے سپاہیوں اور اس نے خود جنگی محاذ پر آخر گولی تک دشمن کے ساتھ مقابلہ کرکے امر ہوگیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں