بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

211

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل بھوک ہڑتالی کیمپ آج 4978 دن بھی جاری رہا جہاں خضدار سے نیشنل پارٹی کے مجیب بلوچ، یاسین بلوچ و دیگر نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے اظہار خیال کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچ قوم اپنی بقاء قومی برادری اور قومی تشخص کے حصول اور قومی غلامی سے نجات کے لئے جس جرات مندی ثابت قدمی اور شعور نظریاتی بالیدگی کے ساتھ جدجہد کر رہی ہے اس کے نظر ماسوائے غلامی جبر کے خلاف برسرپیکار زندہ اقوام کے علاوہ کہیں نہیں ملتی یہ خصوصیت بلوچ قوم کے منفرد غیور بہادر پر خلوص اور انسان دوستی کے حامل مزاج اور روایات کا ہی نتیجہ ہے۔

ماما قدیر کا کہنا تھا استماری قوتیں اُن یادوں اور تاریخ کو بلوچ قوم کے دل اور دماغ سے مٹانے میں ناکا رہی ہیں جو تاریخی طور پر بلوچ قوم کی قومی تشخص کے حوالے سے ہیں لیکن تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے قابض قوتیں جبر استبداد کی تاریخ کو پہلے سے کہیں زیادہ درندگی کے ساتھ دہرا رہی ہیں اپنے فرزندوں پیاروں کی بازیابی کا فکر عمل رکھنے والے بلوچ فرزندوں کی شہادت قتل غارتگری اور قید تشدد کی سامراجی روایات اگر چہ نئی نہیں ہے تاہم اس بار یہ گنہونی روایات درندگی حیوانیت کی تمام حدیں پار کر چکی ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی جدجہد کو کچلنے کی پاکستانی فورسز اور ان کے خفیہ اداروں کی مہم بلوچ نسل کشی کی مہم بن چکی ہے اس نسل کش مہم میں درندگی اور سفاکیت کی مثالیں قائم کی جارہی ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی قوتیں صرف بلوچستان کی سرزمیں اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا سفاکیت اور چنگیزی عمل پاکستانی بالادست طبقے کا بلوچ قوم کے خلاف گہری نفرت اور عداوت کو ظاہر کرتا ہے اس سفاکیت کا بدترین مظاہرہ سیاسی کارکنوں نوجوان طلبہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا نما گرفتاریوں گمشدگیوں کے بعد ان کی تشدد زدہ مسخ شدہ لاشوں کی ویرانوں سے برآمدگی کے انسانیت سوز المیوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے-