بارکھان واقعہ: خان محمد مری کے اہل خانہ بازیاب

520

لیویز ذرائع نے جمعرات کو بتایا کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں کارروائی کے دوران خان محمد مری کے اہل خانہ بازیاب ہوچکے ہیں، جبکہ ترجمان بلوچستان پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بارکھان میں تین افراد کے قتل کے شبے میں صوبائی وزیر سردارعبدالرحمٰن کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ 

چند روز قبل بارکھان میں ایک کنویں سے ایک نامعلوم خاتون اور دو مردوں کی لاشیں ملنے کے واقعے کا الزام صوبائی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبد الرحمٰن کھیتران پر لگا تھا، جس کے بعد صوبائی حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی تھی۔

خان محمد مری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ اور ان کے اہل خانہ سردار عبد الرحمٰن کھیتران کے پاس ملازم تھے، تاہم اس معاملے میں حتمی طور پر معلومات نہیں ہیں۔

لیویز ذرائع کا کہنا تھا کہ ضلع دکی کے علاقے نانا صاحب میں بدھ کو کی گئی کارروائیوں کے دوران خان محمد مری کا ایک بیٹا بازیاب کیا گیا جبکہ ڈیرہ بگٹی اور بارکھان بارڈر سے دو بیٹے بازیاب ہوئے ہیں۔

اس سے قبل ان کے خاندان کے تین افراد جن میں اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور ایک بیٹا شامل ہیں، کو بھی دکی بارکھان بارڈر سے بازیاب کروایا گیا تھا۔

لیویز ذرائع کے مطابق خان محمد مری کے خاندان کے چھ افراد سرکار کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔

سرکاری حکام کے مطابق خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز اور ان کے بچوں کو میڈیا کے سامنے لا کر تمام تفصیلات دی جائیں گی۔

مقدمہ درج، دھرنے جاری

بارکھان میں تین افراد کے قتل کا مقدمہ سرکارکی مدعیت میں بدھ کو نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا، جبکہ دوسری جانب لاشوں کے ہمراہ مری اتحاد کا دھرنا کوئٹہ کے ریڈ زون کے قریب جاری رہا۔

ایس ایچ او بارکھان کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیے گئے مقدمے میں قتل اوراقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

سردارعبدالرحمٰن کی گرفتاری پر دھرنے میں شامل مری اتحاد کے رہنما جہانگیر نے رد عمل دیتے ہوئے کہا: ’اس گرفتاری کو ہم نہیں مانتے ہیں، کیوں کہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف ہے، تو ان کے خلاف کارروائی کیسے ہوسکتی ہے۔‘

دوسری جانب مری اتحاد کے چیئرمین جہانگیر مری نے بھی ایک ویڈیو میں اس بات کی وضاحت کی کہ ’سردارعبدالرحمٰن کھیتران کی گرفتاری کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں،‘ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے انہیں ’تحفظ دینے کے لیے‘ حراست میں لیا ہے۔

’لاش 17 سے 18 سالہ لڑکی کی ہے‘

کنویں سے برآمد ہونے والی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم سول ہسپتال کوئٹہ میں پولیس سرجن عائشہ فیض نے کیا، جنہوں نے میڈیا کے نمائندوں کوبتایا کہ جولاش لائی گئی ہے، وہ 17 سے 18سال کی لڑکی کی ہے۔

پولیس سرج عائشہ فیض نے بتایا کہ ’لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کیا گیا۔ یہ کسی بڑی عمر کی عورت کی لاش نہیں ہے۔ اسے تین گولیاں سر میں ماری گئی تھیں، پھر اس پر تیزاب ڈالا گیا تھا۔‘

ان کے مطابق: ’دوسری لاش کے سر میں پیچھے سے گولی ماری گئی تھی اور گولی ابھی تک جبڑے میں پھنسی ہوئی تھی، جسم پر تشدد کے نشانات ہیں اورموت کی وجہ گولی ہے۔ تیسری لاش کی بھی پوسٹ مارٹم مکمل کرلی گئی ہے۔‘

اس سے قبل بارکھان سے ملنے والی خاتون کی لاش کے بارے میں قیاس کیا جارہا تھا کہ وہ خان محمد مری کی اہلیہ کی لاش ہے۔

سردارعبدالرحمٰن کھیتران کی گرفتاری اور تحقیقات

ترجمان بلوچستان پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بارکھان میں تین افراد کے قتل کے شبے میں سردارعبدالرحمٰن کھیتران کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

بیان میں مزید بتایا گیا کہ سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے صوبائی وزیر سے تحقیقات شروع کردی ہیں اور قتل کے واقعے میں مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان پولیس نے بارکھان واقعے کا کیس کرائمز برانچ کو منتقل کردیا ہے اور کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری سلمان چوہدری کی سربراہی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، ڈی آئی جی کوئٹہ، ڈی آئی جی سپیشنل برانچ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ بھی ٹیم میں شامل ہیں۔

بارکھان واقعے کے خلاف کوہلو، بارکھان، تربت اور حب سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہرے کیے گئے اور کوئٹہ میں دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی منظوری کا مطالبہ کیا گیا۔