میں گوریلا کیوں بنوں؟ (حصہ اول) – ناشناس بلوچ

554

میں گوریلا کیوں بنوں؟
تحریر: ناشناس بلوچ

حصہ دوئم

دی بلوچستان پوسٹ

“بجا ہے کہ حال ماضی کا تسلسل ہے اور اس سے مستقبل کا پتہ چلتا ہے”
تاریخ نے ہمیشہ نوجوان کو مستقبل کے معمار سے تشبیہہ دی ہے کہ نوجوان ہی کسی قوم کے مستقبل کو بگاڑنے اور سنوارنے میں مؤثر کردار ادا کرینگے اور کرتے آرہے ہیں۔ اب اگر بلوچ قومی تحریک اور آج کے لیڈر شپ کے ماضی کو پرکھا جائے اور اسی پرکھائے ہوئے ماضی کا موازنہ حال کے ساتھ کیا جائے تو تجسس کی انبار کھڑی ہوگی کہ حالیہ لیڈرشپ جو زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں یا شہید ہوئے ہیں یا قومی تحریک کے ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں آیا انکی ماضی ایسی تھی جیسا کہ آج کے نوجوانوں کا “حال” ہے؟ انکی ماضی کو دیکھ کر حال میں جو قومی تحریک ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے تو کیا یہ سوال مناسب نہیں ہوگا کہ آیا موجودہ نوجوان ان جنگی/سیاسی ارتقائی تسلسل کو برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں؟

اس کا جواب پانے کیلئے  آج کے نوجوانوں  کو پرکھنا ہوگا۔انکی سیاسی تربیت کو پرکھنا ہوگا انکے سیاسی پروگرامز دیکھنے ہونگے اور سب بڑی چیز انکی “بلوچیت” کو پرکھنا ہوگا کہ کہیں وہ غیر روایتی “نیشنلزم”(پنجابی قوم پرستانہ مزاج)جو  محض  دکھانے اور سستی شہرت پانے کی حد تک محدود اور جامد ہیں یا پاکستانی طرز سیاست کی آڑ میں قومی پہچان “بلوچیت” کو شعوری یا لا شعوری طور پر مسخ تو نہیں کررہے ہیں؟
پھر اسکی جڑوں تک پہنچنے کیلئے موجودہ گراؤنڈ کا خیالی اور حقیقی دورہ کرنا پڑے گا کہ کہیں آج کی نسل جاری قومی تحریک کو مسقتبل میں کامیابی یا آزادی کی سراب تو نہیں دکھا رہی ہے؟

کسی بھی تحریک،انسان یا قوم کی موجودہ نچوڑ کا فلاسفیکل جائزہ لیں تو انکی اچھائی اور برائی کا کریڈٹ ماضی کو جاتا ہے کہ آج وہ کامیاب ہیں یا کامیابی کی طرف گامزن ہیں تو ضرور انکی ماضی کے اثرات ہی مرتب ہونگے کہ وہ فرد،قوم،اور تحریک ماضی میں مثبت رہے ہونگے۔ ماضی کو اگر ہم “پریکٹس” کا نام دیں بھی غلط نہ ہوگا  کہ ماضی کے اجتماعی و قومی تجسس جو آج جواب پارہے ہیں۔ البتہ اگر وہ ان سب کے الٹ ہے تو بھی کریڈٹ ماضی کو ہی جاتا ہے۔

آج کی لیڈر شپ جو نوجوانی کے عمر کو پار کرچکے ہیں اور بلوچ قومی تحریک کے سیاسی/مزاحمتی سپہ سالار ہیں انکی کارکردگی کو دیکھا جائے انکے پروگرامز دیکھے جائیں یا انکی سیاسی تربیت کو دیکھا جائے تو کریڈٹ بھی انکے ماضی کے مخلصی و مثبت سیاسی عمل اور پختہ فکری کو جاتا ہے جو آج وہ اتنی حد تک کامیاب ہوئے ہیں کہ بلوچ کے جنگی گراؤنڈ کو “فدائی” چراغ دینے تک کامیاب ہوئے ہیں اور فنا کی حدِ عبوری سے گزر رہے ہیں۔

آج کے نوجوانوں کے حال کا موازنہ موجودہ لیڈرشپ کی ماضی سے کریں تو کتنی تفریق ہوگی؟

کتنے سیاسی کرپشن ملینگے قومی سوال کو کتنی مظبوطی سے دیکھ پائینگے؟
ماضی میں بھی کچھ یا شاید بہت غلطیاں ہونگے  جنکا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے مگر ماضی کے دور کو مد نظر رکھبکے یہ سوچنا لازم  و ملزوم ہے کہ آج کے نوجوان وہی غلطیوں کو دُہرا رہے ہیں کہ نہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ماضی میں سیاسی مباحث کو فردی زندگی کے ساتھ شاید کہ جوڑا گیا ہو۔اگر آنکھیں بند کرکے یہ بہانہ بنائیں کہ یہ چیزیں(غلطیاں) ماضی میں ہوئے ہیں  اگر ہم کررہے ہیں تو کیا بُرا بڑے بڑے لوگ کرچکے ہیں۔اگر بڑوں نے کی ہے تو ان کے لکھے تحاریر آج بھی موجود ہیں وہ کہاں تک اپنی غلطیوں کو مان رہے ہیں اور کس حد تک خود پر تنقید کرچکے ہیں۔ اگر بڑوں نے چھپائے بھی ہیں تو تاریخی مراحل سے نہیں بچ سکتے۔

آیا آج خود تنقیدی کی گنجائش موجود ہے؟ آج کوئی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ میں غلط تھا یا ہوں! نہیں کیونکہ آج کے موجودہ گراؤنڈ پر سیاست کو یا تو وراثت سمجھا جارہا ہے یا تنقید کو مجروحِ نفسی سمجھ کر ماہرانہ انداز پیش کرکے کہتے ہیں کہ ابھی (فنکشنل)ہوئے ہیں وقت لگے گا تو کیا قابض اتنی بے وقوف ہے تمہیں فنکشنل ہونے دے یا تمھاری طاقت کا انتظار کرے،کیا مقبوضہ اقوام کیلئے یا انکی پختگی کیلئے کبھی قابض منتظر رہے ہیں تو پھر ہم خود کو یا بلوچ قوم کو خوش قسمت غلاموں کے ترازو میں کیوں تول رہے ہیں ؟ جوکہ غلامی سے بد قسمتی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

یہ وہی سوچ ہے کہ ہم چار زانوں بیٹھ کر انٹرنیشنل ایشوز کو ڈسکس کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ ایران کو امریکہ شکست دیگی اور پاکستان پر انڈیا حملہ کریگا تو دشمن کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بلوچ آزادی حاصل کرینگے مگر یہ سوچنے سے قاصر ہیں یا سوچنا نہیں چاہتے یا سوچ محدود ہے کہ بلوچ متعدد سالوں سے  غلامی میں جی رہا ہے تو کیا ان سالوں میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ نہیں کیا؟ یا ایران کتنی بار امریکی شکنجوں میں پھنس کر نکل چکی ہے۔ 71 کی لڑائی میں بلوچ نے پاکستان کی کمزوری کا فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟

آج کے بلوچ نوجوان نیشنلزم کو ذاتی فکر کے دائرے میں بند کرکے پاکستانی سامراج کو شکست دینے کی سبز باغ دیکھ رہا ہے اگر ذاتی دائرے میں بند نا بھی کرے تو قومی سوچ کو وسعت دینے میں بھی ناکام ہے کیونکہ قومی سوچ ایشو پولٹیکس(پارلیمانی طرزِ سیاست) کے ساتھ نا تو نشونما پائیگی اور نا ہی مستقبل کے معمار قومی سوال کے معمار بنینگے۔

بلوچ کے قومی مزاج اور تاریخ کو دیکھیں تو بلوچ میں بانجھ پن نہ تھا نا ہے بلوچ ماؤں نے ہمیشہ بانجھ پن تسلیم ہی نا کیا وہ جنتے رہے۔
اور نا ہی اتنی قربانیاں دینے کے باوجود بلوچ قومی تحریک بانجھ پن کا شکار ہوگا۔مگر بات آتی ہے ذمہ داریوں کی کہ کس پر کتنی قومی ذمہ داریاں ہیں۔ بلوچ مائیں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے “لمہ یاسمین” جس نے ریحان کو جنا۔”شاری بلوچ” جس نے جنے ہوئے اولاد کا زمین کے ساتھ موازانہ ہی نا کیا کہ وجود اور بقا ہی سب کچھ ہیں۔ اسی طرح قومی تاریخ ایسی امثال سے بھری پڑی ہے۔

مگر بلوچ کو بہ حیثیتِ غلام اور جدو جہدِ آزادی کیلئے جنم سے لیکر موت(شہادت) تک پہنچنے میں مختلف مراحل سے گزر کر قومی بقاء کیلئے خود کو تیار اور قربان کرنا ہوتا ہے۔ان مراحل میں سیاست،سیاسی تربیت،سیاسی موبلائزیشن،نیشنلزم، اور خاص کر بلوچیت (بلوچی روایات جو ہماری قومی پہچان ہیں)کہ جن کی پیروی ہمیں قومی تناظر میں لاکر بسا دیتی ہے وغیرہ۔ ان سے گزر کر تب جاکے فیصلہ ساز لوگ پیدا ہونگے اور یہ فیصلہ ساز افراد مستقبل میں موجودہ قومی تحریک کو بانجھ پن کی شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔

اب موجودہ نسل جو سیاسی نشونما پارہی ہے تو کیا آج کے سیاسی توشہ خانہ میں اتنی سیاسی پختہ ذخائر جمع کررہے ہیں کہ آگے جاکر ان ذخائر کو استعمال میں لاکر قومی بقاء کے ضامن بنا دیں ۔ جس طرح سرد علاقوں میں لوگ لکڑیوں کا گانٹھ جمع کرتے ہیں کہ ٹھنڈ پڑ جانے پر لکڑیوں کو جلا کر آگ کی گرمی کو محسوس کریں۔

آج کے سیاسی ذخائر اگر ماضی جیسے ہونگے جو مستعمل ہیں اور عروج پارہے ہیں تو خودمختاری اتنی قریب ہوگی اگر ان  سے بہتر ہونگے تو تاریخ بھی داد دینے کی مستحق قرار دیگی۔

مگر آج قومی سیاسی توشہ خانہ میں پروٹسٹ،منفی لابینگ،سیاسی بٹوارا، قابلِ رحم تصوّرات، جی حضوری، عدم برداشت، تنقید برائے تنقید و تذلیل، وغیرہ ان اصطلاحات سے وقتی طور پر گرؤانڈ چمک تو سکتی ہے مگر وہ ذخائر پیدا نہیں ہونگے جو مستقبل میں بلوچ کی رہنمائی کریں اگر ہوں بھی تو اِکّا دُکّا( قومی مزاج کے پیروکار) جو سامراج کو جنگی یا سیاسی میدان میں مصروف رکھ سکتے ہیں مگر شاید کہ پیچھےدھکیل سکیں۔
سامراج ان پر زیادہ حاوی ہوگا جو خود کو قابل رحم سمجھ کر جد و جہد کرتے ہیں کہ آزادی ملے اور ہماری خواہشات یا زندگی کو آنچ نہ آئے تو اس طرح کی جد و جہد سے سامراج کو خوشی ہوگی کہ مقبوضہ قوم کی مستقبل جو نعروں تک محدود اور ذرا سی سامراجی مزاحمت سے خاموش ہو کر بھاگ جاتے ہیں(بجائے زندانوں کے بھرنے کے)۔ تو یہ طرزِ مزاحمت جو صرف اور صرف وقت گزارنے کی مترادف ہے اس سے آزادی کوسوں دور ہے۔ ایسے گراؤنڈ ہمشیہ بانجھ پن کی شکار ہو کر رہ جاتی ہیں جو کہ  موجودہ گراؤنڈ میں پریکٹس ہو رہی ہیں جسے (سیاسی سٹنٹ) کہنا مناسب ہوگا۔

ہاں البتہ تحریک کو وہ افراد ملتے ہیں جو قومی مزاج کے پیرو کار ہیں جو ظلم،جبر،استحالی اور بلوچ کی نسل کُشی کو برادشت نا کرتے ہوئے محاذ پر ڈٹے ہوئے ملینگے۔ان میں کسان،شوان وغیرہ جنہیں نا کچھ لکھنا آتا ہے اور نا ہی پڑھنا تو ان کا کریڈٹ قومی مزاج اور ریاستی قابضانہ رویے کو جاتا ہے حقیقت اور یہ بھی ہے کہ موجودہ جنگ گراؤنڈ کے جوانوں میں مسافت کرچکی ہے۔

مگر تحریک کو فیصلہ ساز لوگوں کی اشد ضرورت ہوگی جو ہر جنگی و سیاسی نقطوں کی فلسفہ پر رہ کر ہر قدم سے آنے والے قدم تک کی (گوریلا و سیاسی)فیصلہ سازی کریں اور جو قومی مزاج کی پیروکاری کرتے ہوئے محاذوں پر ملیں تو انکی تربیت بھی کریں کہ وقت نے اِنہیں مواقع فراہم کئے اور اُنہیں نہیں۔

خواہشات، ذاتی زندگی، خاندان اور آسائش وغیروں کو مسخ  کرنے سے تب جاکر  مستقبل میں قومی تحریک(قومی سوال) کے معمار پیدا ہونگے۔ مگر آج انکو “بائی پاس”کرکے موجودہ نسل عین وقت آنے پر کیسے معجزاتی رویہ اختیار کریگی جو کہ تاریخ میں شاید کہیں موجود ہو۔
اگر حال کے تسلسل یہ ہیں تو یہ حال کچھ سالوں میں آگے جاکر ماضی میں تبدیل ہوگی تب جاکر مستقبل صاف آئینے کی طرح واضح ہوگی اور اسی ماضی کو یاد دلائے گی جو موجودہ حال ہے پھر جو مستقبل ہوگی اسکا پتہ آج کے “حال” کے ساتھ بہت  وابستگی رکھتی  ہے۔

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں