بلوچستان میں پاکستانی فوج پر حملوں میں اضافہ – ٹی بی پی اداریہ

680

بلوچستان گذشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مسلح آزادی پسند تحریک کے زد میں ہے لیکن حالیہ دنوں پاکستانی فوج پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جِن میں پاکستانی آرمی کو شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سمیت کیچ ، خضدار ، حب ، کوہلو اور نوشکی میں حملے ہوئے ہیں اور اِن حملوں میں دو بڑے حملے شامل میں جِن میں آفیسر رینک کے اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔

23 دسمبر کی رات کو ضلعی ہیڈ کوارٹر تربت کے حدود میں گوکدان کے مقام پر پہلے سے گھات لگائے حملہ آوروں نے ایف سی کے ایک قافلے پر حملہ کیا، جس میں صوبیدار سمیت چار اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ دوسرا حملہ 25 دسمبر کو ضلع کوہلو کے تحصیل کاہان میں فوجی قافلے پر ہوا، جس میں پاکستان آرمی کے کیپٹن سمیت سات اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

2022 کا سال بلوچستان میں پاکستان کے سیکیورٹی فورسز کے لئے بہت بھاری رہا ہے، 25 جنوری کو ضلع کیچ کے علاقہ دشت سبدان میں فوج کے کیمپ پر بی ایل ایف کے حملے میں دس سے زیادہ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔ 2 فروری کی رات کو بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے سیکیورٹی فورسز کے نوشکی اور پنجگور کیمپ پر حملہ کیا، یہ بلوچ جدوجہد میں پہلا مرحلہ تھا کہ مزاحمت کاروں نے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ کو قبضہ کرکے تین دن تک قبضہ قائم رکھتے ہوئے، جنگ جاری رکھا۔

اپریل کے مہینے کراچی یونیورسٹی میں مجید بریگیڈ کے شاری بلوچ نے کنفیوشس انسٹیوٹ کے چینی اساتذہ کو ایک فدائی حملے میں نشانہ بنایا، جس میں میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہوئے۔ یہ بلوچ تاریخ میں پہلا فدائی حملہ تھا جو بلوچ خاتون نے کی ہو۔

جولائی کے مہینے میں بی ایل اے نے پاکستانی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل لئیق کو زیارت سے اغوا کیا اور ستمبر کے مہینے میں بی ایل اے نے فوج کے ایک صوبیدار کو ہراست میں لینے کے بعد پاکستان کو براہ راست قیدیوں کے تبادلے کی دعوت دی۔ یہ واقعات بلوچ مسلح تنظیوں کی پالیسوں میں تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔

پاکستان کے دفاعی تجزیہ نگار پیشن گوئی کر رہے تھے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بلوچ تحریک کمزور ہوگی لیکن حالیہ کچھ سالوں سے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیمیں خود کو دوبارہ منظم کررہے ہیں اور مسلح تنظیموں کی پالیسوں میں تبدیلی کے بعد اُن کے کاروائیوں کے شدت اور دائرہ کار میں بھی اضافہ ہوا ہے، اب وہ بلوچستان سے باہر کراچی میں چین کے مفادات کو براہ راست نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے مستقبل میں چین و پاکستان کے مشکلات میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔