کھیل، احتجاج اور سیاست ۔ سفرخان بلوچ (آسگال)

413

کھیل، احتجاج اور سیاست 

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال) 

دی بلوچستان پوسٹ 

گذشتہ دنوں پرتگال اور یوراگوئے کے مابین کھیلے گئے فٹبال ورلڈ کپ میچ کے دوران اٹلی سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے دوران میچ جھنڈا ہاتھ میں لئے گراؤنڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا، اس کا مقصد صرف یہی تھا اس وقت ایران میں “زن زندگی آزادی” تحریک، روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کے حوالے سے احتجاج ریکارڈ کرائے۔ گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی کچھ سیکنڈوں کے اندر اس کو گراؤنڈ انتظامیہ کے جانب سے گرفتار کیا گیا، مگر اس کو جو کرنا تھا اس میں وہ کامیاب ہوگیا۔ اگلے روز دنیا کے بڑے سے بڑے میڈیا چینلوں کے شہہ سرخیوں میں وہ خبر جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

ہر دور میں اس طرح کے میگا ایوینٹس میں اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں تماش بین گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہیں، اسطرح کے زیادہ تر واقعات شائقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں سے ملنے کے لئے سرانجام دیتے ہیں، یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کو اجاگر کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہو۔ دوران کھیل مسئلوں پہ احتجاج کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔

اس سال قطر میں جاری فٹبال کے میگا ایوینٹس میں جرمنی کی ٹیم نے قطر کی جانب سے لگائے گئے کئی پابندیوں کے خلاف اپنے پہلے میچ میں فوٹو شوٹ کے دوران اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کر تصاویر کھینچا اور ایرانی کھلاڑیوں نے پہلے میچ میں ایران میں جاری کشیدگی کی وجہ سے قومی ترانہ نہ پڑھا، جبکہ انگلش کھلاڑی کچھ دیر کیلئے گھٹنوں پر بیٹھے۔ یہ احتجاج جو 2016 سے کھیل کے میدان میں کھلاڑیوں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔ 2014 میں امریکی پولیس کے ہاتھوں ایک سیاہ فام شخص ایریک گارنر کی موت ہوگئی تھی۔ پولیس اہلکار نے ایرک گارنر کی گردن دبا رکھی تھی اور وہ گُھٹی گُھٹی آواز میں کہہ رہے تھے (I Cant Breathe)۔ ایرک گارنر کے بعد 2020 میں امریکا ہی میں ایک اور سیاہ فام جارج فلائیڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور انہوں نے بھی موت سے قبل یہی الفاظ دہرائے۔ یہ الفاظ دنیا بھر میں نسل پرستی کیخلاف مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں جبکہ پولیس کے اس اقدام کو دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکا میں سیاہ فام افراد نے مظاہرے کیے جس کے بعد یہ تحریک زور پکڑتی گئی اور ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس کے خلاف اپنے انداز سے آواز بلند کی۔ کھیلوں میں سب سے پہلے امریکی فٹبالرکولن کائپر نک نے 2016 میں گھٹنوں پر بیٹھ کر نسل پرستی کیخلاف احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کیا۔ امریکی فٹبالرز نے قومی ترانے کے دوران گھٹنوں پر بیٹھ کر احتجاج کیا اور مؤقف اپنایا کہ وہ اس ملک کے قومی پرچم کے وقار کیلئے کھڑے نہیں ہوسکتے، جہاں سیاہ فام افراد کو دبایا جاتا ہو۔

انگلش فٹبال ٹیم کی مردوں اور خواتین کی ٹیموں نے نسل پرستی کیخلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھنے کے انداز کو 2021 اور 2022 میں ہونے والی یورپی چیمپئن شپ میں اپنایا۔ اس  کے علاوہ پریمیئر لیگ کے کھلاڑی بھی میچ سے  قبل گھٹنوں پر بیٹھے۔

کھیلوں کے دوران کھلاڑی اور ٹیموں یا تماشائیوں کی جانب سے متعدد حوالے سے احتجاج ریکارڈ کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ دور میں کھیلوں کے دوران سب سے زیادہ احتجاج دوہراز آٹھ کو چین میں ہونے والے اولمپک کے دوران تبتیوں کی جانب سے دیکھا گیا۔ ویسے احتجاج فٹبال یا کرکٹ کے میگا ایوینٹس سے زیادہ اولمپک مقابلوں میں زیادہ دیکھا گیا ہے۔ اسی وجہ سے انٹرنیشنل اولمپک چارٹر کے قاعدہ نمبر 50 کے مطابق اولمپک گیمز کے دوران کسی بھی قسم کے احتجاج پر پابندی تھی، تاہم گزشتہ برس امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت اور ملک گیر احتجاج کے بعد امریکی اولمپک اور پیرالمپک کمیٹی نے اس قانون میں نرمی کی تجویز دی جس کے بعد اب نئے قانون کے مطابق کھلاڑی احتجاج تو کر سکیں گے لیکن گیمز کے دوران، صحافیوں کے سامنے، ٹیم میٹنگز کے دوران اور اولمپک ویلج میں احتجاج کی اجازت نہیں ہو گی۔

سنہ 1906 میں یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں ہونے والے ‘انٹرکلیٹڈ گیمز’ کو اس زمانے میں اولمپک کمیٹی کی سپورٹ حاصل تھی۔ اسی لیے اس وقت انہیں اولمپک گیمز ہی مانا گیا لیکن بعد میں اس کا درجہ تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایتھلیٹ پیٹر او کونر کی وجہ سے آج بھی یہ کھیل شائقین کو یاد ہے کیوں کہ اس آئرش ایتھلیٹ نے برطانیہ کے جھنڈے تلے میڈل لینے سے انکار کر دیا تھا۔

جب آئرش ایتھلیٹ کو لانگ جمپ میں چاندی کا تمغہ دینے کی تقریب ہو رہی تھی تو انہوں نے یونین جیک کی جگہ اپنے ساتھ لائے ہوئے آئرش جھنڈے کو اس کی جگہ پول پر نصب کر دیا تھا۔ اس واقعے کے 10 برس بعد آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان جنگِ آزادی کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں آئرلینڈ کا قیام ممکن ہوا تھا۔ اس احتجاج کے ساتھ ہی پیٹر او کونر نے دنیا کے سب سے بڑے اسٹیج پر کسی بھی قسم کے احتجاج کی بھی بنیاد رکھی تھی۔

ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں نسلی تعصب اور اس کے خلاف مظاہرے عروج پر تھے۔ میلکم ایکس اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ سیاہ فام امریکیوں کے لیڈر بن کر اُبھرے تھے لیکن جب 1965 میں میلکم ایکس اور 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کیا گیا تھا تو افریقی نژاد امریکیوں کا غصہ اور حکومت کا جوابی وار تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایسے میں جب اولمپک گیمز میں دو سیاہ فام امریکی ٹامی اسمتھ اور جان کارلوس دو سو میٹر ریس جیتے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دونوں کھلاڑی احتجاج کریں گے۔

سونے اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے سیاہ فام ایتھلیٹس ٹامی اسمتھ اور جان کارلوس نے میڈل تقریب میں ‘بلیک پاور سلیوٹ’ کیا جس میں چاندی کا تمغہ جیتنے والے آسٹریلوی اسپرنٹر پیٹر نارمن نے ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ دونوں امریکی اسپرنٹرز کو اولمپک گیمز سے واپس بھیجنے کے ساتھ ساتھ پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا جب کہ آسٹریلوی ٹریک اسٹار کو بھی بقیہ مقابلوں سے دست بردار ہونا پڑا تھا۔اس احتجاج نے نہ صرف دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی تھی بلکہ اسے آج بھی نسلی تعصب کے خلاف احتجاج کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سنہ 1980 میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے اولمپک گیمز کا بائی کاٹ یہ کہہ کر کیا کہ اگر روس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائیں تو کوئی بھی امریکی اتحادی میگا ایونٹ میں شرکت نہیں کرے گا۔ روس نے امریکہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انہیں اولمپک میں 66 ممالک کی غیر حاضری کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

اس واقعے کے بعد 1984 میں روسی ایتھلیٹ جواب میں لاس اینجلس اولمپکس میں شرکت کے لیے امریکہ نہیں گئے تھے۔ لیکن 1984 میں 66 ممالک کے مقابلے میں صرف 14 ممالک نے اولمپکس کا بائی کاٹ کیا تھا جس میں روس، بلغاریہ، مشرقی جرمنی اور افغانستان شامل تھے۔ سنہ 1984 کے اولمپک گیمز میں ریکارڈ 140 ممالک کی شرکت سے روس کو دھچکہ تو لگا لیکن اس نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلائیں تھیں۔

سنہ 2016 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے اولمپک گیمز میں اس وقت دلچسپ صورتِ حال دیکھنے میں آئی جب ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے فئیسا للیسا نے میراتھن ریس کے اختتام پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

ایتھوپین رنر نے فنش لائن پر پہنچتے ہی اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر ‘کراس’ کا نشان بنایا تھا جس کا مقصد ایتھوپیا میں اورومو قبیلے کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جانب توجہ دلانا تھا۔ میراتھن ریس میں سلور میڈل جیتنے کے بعد ایتھوپین ایتھلیٹ نے کہا کہ اگر وہ واپس اپنے وطن گئے تو انہیں یا تو مار دیا جائے گا یا پھر قید کر دیا جائے گا۔ دو برس بعد جب ایتھوپیا میں حکومت بدلی تو فئیسا للیسا کی واپسی ہوئی۔ یہ اس فعل کی وجہ سے اپنی اورومو کمیونٹی میں بے حد مقبول ہوئے۔

1986 کے فٹبال ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میچ جس کو فٹبال کی مشکوک ترین گول ( hand of god) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میچ یا گول کے سیاسی سیاق و سباق کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ 1982 میں ارجنٹینا نے جزائر فاک لینڈ یا لاس مالویناس پر حملہ کیا، جزائر فاک لینڈ یا لاس مالویناس ارجنٹینا کے ساحل سے تقریباً 300 میل دور ایک برطانوی سمندر پار علاقہ ہے۔ ان جزائر پر 1833 سے انگریزوں کا قبضہ چلا آ رہا تھا اور سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے ان جزائر پر دوبارہ قبضہ مستحکم کرنے کے لیے بحر اوقیانوس کے پار آٹھ ہزار میل دور ایک فوجی ٹاسک فورس بھیج کر ’آئرن لیڈی‘ کے طور پر اپنی شبیہ کو پختہ کیا۔انگلینڈ کا دعویٰ تھا کہ اس کا بنیادی محرک جزیروں کی خود ارادیت کا تحفظ یقینی بنانا تھا لیکن اصل میں اس کے پیچھے انٹارکٹکا کے  انتظامی امور سنبھالنے اور بیش قیمت ماہی گیری کے حقوق کے معاملات تھے۔

غیرجانبدار اقوام اور افراد کے اندر ارجنٹینا کے لیے کافی ہمدردی پائی جاتی تھی کیونکہ وہ اسے انگریزوں کے نوآبادیاتی سامراج کی ایک انتشار پسندانہ حرکت کے طور پر دیکھتے تھے۔ارجنٹینا کے جرنیلوں کی تذلیل نے ممکنہ طور پر ارجنٹینا میں فوجی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کا عمل تیز تر کر دیا۔ لیکن دوسری طرف اس سے انگریزوں کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پیدا ہوئے کیونکہ ارجنٹینا کے افراد اپنے دل میں یقین رکھتے ہیں کہ لاس مالویناس ان کا ہے برطانیہ کا نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ 1986 کے ورلڈ کپ میں دونوں کا سامنا ایک اور جہت بھی رکھتا تھا جیسا کہ میراڈونا نے بعد میں اپنی خود نوشت ’میں ڈیاگو ہوں‘ میں لکھا: ’کسی نہ کسی طرح ہم نے انگلش کھلاڑیوں کو ہر اس چیز کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جو ارجنٹینا کے لوگوں نے برداشت کی تھی۔۔۔ ہم اپنے جھنڈے، مرنے والوں اور زندہ بچ جانے والے بچوں کا دفاع کر رہے تھے۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ ایسے تھا، جیسے ہم نے فٹ بال کی کسی ٹیم کو نہیں بلکہ ایک ملک کو شکست دی ہو۔ اگرچہ ہم نے میچ سے پہلے کہا تھا کہ فٹ بال کا جزائر فاک لینڈ کی لڑائی سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہم جانتے تھے کہ انہوں نے وہاں ارجنٹینا کے بہت سے نوجوانوں کو مارا، ایسے مارا جیسے معصوم پرندوں کو مارا جاتا ہے، یہ ہماری طرف سے انتقام تھا۔‘


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں