گوادر: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج

152

بلوچ یکجہتی کمیٹی گوادر کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

مظاہرے میں فورسز کے ہاتھوں لاپتہ عظیم دوست بلوچ، بولان کریم، نسیم بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنماؤں کے علاوہ خواتین و بچوں کی بڑی تعداد شریک تھیں-

مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچ اپنے سرزمین اور وطن کا مالک ہیں ایک ایسی سرزمین جو دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بلوچ اپنی سرزمین پر کسمپرسی سے دوچار ہے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاری ہیں اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاستی مظالم سے بلوچستان کے شہری ذہنی مریض بن چکے ہیں لاپتہ افراد کے بچے اسکول جانے کی بجائے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہروں میں شریک ہیں ریاست کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بلوچ اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں پر خاموش نہیں رہینگے-

مقررین نے کہا کہ ریاست مجرم ہے جو لوگوں کو سالوں سے لاپتہ کرتا ہے اگر یہ لوگ مجرم ہیں تو انکو عدالتوں میں پیش کیا جائے اس طرح لاپتہ کرکے غائب کرنا جرم ہے اور یہ جرم ریاست کی طرف سے ہورہی ہے-

اس دوران مظاہرین میں شریک بلوچ بچے نے ریاستی اداروں سے سوال کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا بڑے ہونے پر اسے بھی لاپتہ کردیا جائے گا-

مظاہرے میں شرکت کرنے والی لاپتہ عظیم دوست کی بہن رخسانہ دوست نے بتایا میرے بھائی کو جبری لاپتہ کیئے سات سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے، آئے روز ہم روڈوں پر نکل کر انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں تاہم اتنے احتجاجوں کے باوجود ارباب اختیار و لاپتہ کرنے والوں پر کوئی بھی اثر نہیں پڑھ رہا-

رخسانہ دوست نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہمیشہ رہا ہے کہ بھائی کو بازیاب کیا جائے، ہم بار بار یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کریں اور ان پر جرم ثابت کریں تاہم عدالتیں بھی شہریوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ہر چیز واضح ہے کہ کوئی بھی جرم میں ملوث ہے تو عدالت اس کو سزا دیتی ہے لیکن ہمارے نوجوانوں کو ماورائے عدالت و قانون سالوں لاپتہ رکھ کر قتل کرکے انکی لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔

گوادر مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان سونے اور دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ لاشیں اگلنے لگی ہیں اس سے قبل خضدار و پنجگور سے کئی سو لاشیں ملی اسی طرح کوئٹہ کے دشت قبرستان میں قبروں سے ایک علاقہ سجایا گیا اب پنجاب کے ہسپتالوں سے بھی لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہورہی ہے اس تمام میں ریاستی ادارے برائے راست ملوث ہیں-

مظاہرین کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام ناانصافیوں کے خلاف جب بلوچستان کے شہری سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں تو اگلے روز انھیں بھی جبری لاپتہ کردیا جاتا البتہ اب بلوچ اس جبر سے تنگ آکر مزید شدت سے اپنی آواز بلند کرینگے-

اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی بلوچستان میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ارباب اختیار جتنے جبری گمشدگیوں کو طول دینگے یہ انہی کے لئے مسائل پیدا کرینگے کیونکہ بلوچستان کے باسی اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں پر کبھی بھی خاموشی اختیار نہیں کرینگے-