لائبریری کی اہمیت ۔ ساحل بلوچ

840

لائبریری کی اہمیت

تحریر: ساحل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

لائبریری” لاطینی” زبان کا لفظ ہے جو “لائبر “سےنکلا ہے جس کا معنی ہے کتاب ،سادہ الفاظ میں یوں سمجھیئے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔لائبریری کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر کسی غریب بچے کو گھر میں پڑھنے کے لیے ماحول مہیانہیں ہے، تو اس بچے کے لیے لائبریری ایک بہترین ماحول ہے ۔ جہاں ایک بچہ خودبخود پڑھنے لگتا ہے۔اور ہر طالب علم ہر کتاب کو نہیں خرید سکتا، مگر لائبریری میں اُنہیں کئی بہترین کتابیں میسر ہو سکتے ہیں۔ لائبریری صرف کتابیں یا کتب بینی کےلیےایک ماحول مہیانہیں کرتی بلکہ یہ معاشرے کا وہ حصہ ہے جہاں باقاعدہ مُستقبل کی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے۔ علم ہی ایک تعلیم یافتہ اور ایک جاہلیت میں فرق رکھتا ہے۔ اور لائبریری میں مختلف قسم کے انواع و اقسام کی کتاب جمع کی جاتی ہیں اور دوسرے لوگوں کو یہ کتابیں پڑھنے کے لیے موزوں ماحول اور جگہ فراہم کی جاتی ہے. کتب خانے کسی بھی معاشرے کی ترقی و ترویج کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

“ماہر نفسیات کے مطابق ہم پڑھتے وقت دو طرح سے تھک جاتے ہیں ایک نفسیاتی حوالے سے، دوسرا جسمانی حوالے سے۔ لائبریری میں پڑھنے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان نفسیاتی تھکاوٹ کا کم شکار رہتا ہے کیونکہ ہم اپنے ارد گرد لوگوں کو پڑھنے میں مصروف دیکھتے ہیں تو ذہن اس بات پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ اُن کی طرح ہم بھی نہیں تھکے ہیں”۔

لائبریری علم و فکر اور تعلیم حاصل کرنے کا مرکز ہے ’’کتاب‘‘سفاہت سے معرفت، جہالت سے علم اور ظلمات سے نور کی طرف لے جاتی ہیں۔ کسی بھی قوم کو کسی بھی میدان میں عملی تجربات سے قبل نظریات اور اصول چاہئیں جن کی حفاظت کے لیے اس قوم کے پاس لائبریریز ہیں ۔ جن کی اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ اہل علم کسی ملک میں پائی جانے والی لائبریرز کو اس ملک کی ثقافتی ، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا نہ صرف ضریح سمجھا بلکہ قومی ورثہ قرار دیتے ہیں۔

اگر کسی ملک کی ترقی کا جائزہ لینا ہو تو وہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو دیکھا جائے اور تعلیمی اداروں کی ترقی کاجائزہ لیناہو، تو وہاں پر موجود لائبریریوں کودیکھا جائے۔ جہاں لائبریریاں آباد ہوں گی وہاں تعلیمی ادارے بھی اسی قدر تعلیم و تحقیق میں فعال ہوں گے۔ جس کا لازمی نتیجہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی اور عوام کی خوشحالی ہے۔

تاریخ بھی اُنہی قوموں کا احترام کرتی ہے جو اپنے عِلمی سرمایہ کی حِفاظت کرنا جانتی ہیں۔ مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اس لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے تو اس اعتبار سے بھی لائبریریوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی ہے۔ پھرہر انسان کی اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا شوق ہوتا ہے۔ بعض تاریخی کتابیں پسند کرتے ہیں۔ بعض ادبی، بعض سیاسی اور بعض دینی کتابوں کا شوق رکھتے ہیں۔ ایک لائبریری میں مختلف موضوعات سے متعلق کتابیں ہوتی ہیں اور ایک موضوع پر بہت سے کتابیں مل جاتی ہیں اور انسان ایک وقت میں ایک موضوع پر ہر قسم کے خیالات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ تجزیے، تحقیق، رائے اور بھی بہت سے ذریعے ہیں لائبریری کے فائدے کو بیان کرنے کے لیے مگر مُختصراً یہ کہ جیسے ہر شے کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح کتابی کلچر کو بڑھانے کے لیے معاشرے میں لائبریریوں کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں لائبریریوں کے بارے میں نظر ثانی کی جائے تب پنجاب کے ہر اسکول میں آپ کو بہترین لائبریری میسر ہوگا اور اس کے علاوہ وہاں کا تعلیمی نظام سمیت تعلیمی اداروں میں ہر طرح کی سہولیات فراہم ہونگی مگر افسوس جب ہم بلوچستان میں تعلیمی نظام پے نظر دہراتے ہیں تب ہمیں ہر طرح مایوسی، غیر فعال اسکولیں، درہم برہم تعلیمی نظام، سہولیات کا فقدان، اساتذہ کی کمی سمیت کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ لائبریریاں نہ ہونے کے برابر میں اگر کچھ ہیں وہ بھی بلوچ طلبہ تنظیموں نے اپنی مدد آپ فعال کی ہیں۔ البتہ حکومتِ بلوچستان تعلیمی نظام کے بارے میں عدم توجگی اور عدم دلچسپ ہی نظر آتا ہے۔ بلوچستان میں چند لائبریریاں ہیں جو پوری طرح فعال بھی نہیں ہیں۔

لائبریری کے حوالے سے اگر میں اپنے علاقےکی بات کروں تب حب اور گڈانی جہاں کئی ساری انڈسٹریاں سمیت گڈانی بریکنگ شپ وجود رکھتا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہیکہ یہاں کے نوجوان آج کے اس پوسٹ مارڈرن دور، ایڈوانس دور میں بھی بمشکل پرائمری جماعت پاس کرکے مُختلف فیکڑیوں اور سمندری جہازوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں کیونکہ تعلیمی نظام مفلوج ہے، اسکولیں بند ہیں، اساتذہ کی کمیاں، لائبریوں کابحران سمیت تعلیمی اداروں میں ہر طرح کے سہولیات کا فقدان ہے۔ گڈانی میں تعلیم کے لیے اتنی سہولیات موجود نہیں کہ ایک غریب بچہ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے۔ یہاں کے نوجوانوں کو پڑھنے کے لئے لائبریری کی سخت ضرورت ہے۔ جہاں پڑھنے کا ماحول میسر ہو۔ مگر گڈانی میں لائبریری نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں۔

اس کے باوجود کچھ نوجوان ایسے بھی گڈانی میں موجود ہیں۔ جو کچھ کام کر کے اپنےپڑھائی کو جاری وساری کرتے ہیں۔ مگر حب کو ہمارے حکمران، سیاست دان الگ ضلع بنانے کی جستجو میں ہیں ۔ جہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک لائبریری موجود نہیں۔ پاکستان تعلیم کے لحاظ سے دوسرے ممالک سے 60 سال پیچھے ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ تعلیم کو اہمیت نہ دینا ہے۔ ہر علاقے میں ایک لائبریری بنائیں تاکہ ایک غریب بچہ جو بڑے بڑے اکیڈمی ، سینٹرز دیگر تعلیمی اداروں کا رُخ نہیں کر سکتا تب کم از کم وہ لائبریری میں اپنی مدد آپ پڑھ تو سکتا ہے تاکہ وہ اپنی پڑھائی کو جاری و ساری رکھ سکے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں