بی این ایم برلن کانفرنس کا پہلا سیشن اختتام، بلوچ ،سندھی، اویغور اور کرد نمائندگان کا خطاب

326

آج ہفتے کے روز بلوچ نیشنل موومنٹ کے زیر اہتمام برلن میں ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔دو حصوں پر مشتمل کانفرنس کے پہلے حصے میں بلوچستان اور خطے کے محکوم اقوام کے موضوع پر سندھی دانشور اور ورلڈ سندھی کانگریس کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر لکھو لوہانہ، ورلڈ اویغور کانگریس کے صدر دولکون عیسی، کرد سیاسی رہنماء ماکو قوگیری اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئرجوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ نے خطاب کیا۔

بلوچستان کی صورتحال پر بی این ایم کے مرکزی کمیٹی کے ممبر فہیم بلوچ نے پریزنٹیشن پیش کیا جبکہ بی این ایم جرمنی چیپٹر کی نائب صدر سمل بلوچ نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔

ڈاکٹر لکھو لوہانہ نے کہا پاکستان میں فوج کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ بااختیار نہیں۔پاکستانی ریاست نے سندھی ، بلوچ اور سرائیکیوں کے وسائل لوٹ کر انھیں پسماندہ رکھا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور سیلاب کے نام پر ریاست خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے ، لیکن سندھ میں لوگ بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں یہ دانستہ یہ نسل کشی ہے۔

انھوں نے کہا پاکستانی ریاست کو بلوچ ، سندھی اور سرائیکیوں کی پرواہ نہیں بلکہ ریاست ہی ان کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔وہاں لوگوں کو جبری لاپتہ کیا جا رہا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ بلوچ جبری گمشدگی کے شکار ہیں۔ہزاروں بلوچوں کو پاکستانی ریاست نے جبری لاپتہ کیا ہے۔

ورلڈ اویغور کانگریس کے صدر دولکون عیسی نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں لیکن چین میں ہمیں اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کی قطعا اجازت نہیں۔وہاں مسلمان آپس میں ایک دوسرے ’سلام‘ نہیں کہہ سکتے۔وہ اپنے بچوں کے اسلامی نام محمد، احمد وغیرہ نہیں رکھ سکتے۔اگر کسی کی عمر 60 سال تھی اور اس کا کوئی اسلامی نام تھا تب بھی اسے اپنا نام بدلنے پر مجبور کیا گیا۔

’ لاکھوں بچوں کو اپنے والدین سے الگ کیا گیا تاکہ انھیں اپنی شناخت سے محروم کیا جاسکے۔1949ء سے لے کر اب تک لاکھوں لوگوں کو چینی فورسز نے قتل کیا اور خواتین کا ریپ کیا گیا۔‘

انھوں نے کہا سی پیک روٹ کے تحت جس طرح پاکستان بلوچوں پر مظالم ڈھا کر ان کے وسائل کو ہڑپ رہا ہے اسی طرح چین اویغور زمین اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔اویغور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر پاکستان ، ایران ، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک اس لیے چپ ہیں کہ انھیں اپنی معشیت اور سرمایہ کی فکر ہے ، انسانیت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔

کرد سیاسی رہنماء اور جرمنی میں سیوکا آزاد نامی کرد تنظیم کے ترجمان ماکو قوگیری نے کرد قوم کی تین ریاستوں کے درمیان تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے اس تقسیم کی وجہ سے کرد قوم کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔

اس موقع پر بلوچ نیشنل موومنٹ کے جونیئر جوائنٹ سیکریٹری حسن دوست بلوچ نے کہا بلوچستان پر پاکستان نے 1948 کو قبضہ کیا اور اب تک لاکھوں لوگ قتل اور جبری لاپتہ کیے گئے ہیں۔بلوچستان میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جبری گمشدگی کے شکار افراد نے خودکشیاں کی ہیں جس کی وجہ ٹارچرسیل میں ان کے ساتھ سلوک ہے۔ وہاں ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا کہ رہائی کے بعد وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اب اپنے سماج میں رہنے کے قابل نہیں۔

انھوں نے کہا دنیا میں پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے بھی قوموں نے اپنی آزادی حاصل کی لیکن پاکستان جمہوریت نہیں صرف جبر کی زبان جانتا ہے۔سندھی ، بلوچ اور پشتون کی زمین اور وسائل پر قبضہ کرکے ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ہماری جدوجہد اسی جبر کے خلاف ہے۔طویل و لاحاصل جدوجہد کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلط کردہ پاکستانی پارلیمانی نظام کے تحت سیاست کرکے ہم آزاد نہیں ہوسکتے۔اس لیے آج غیرپارلیمانی سیاست کی بنیاد پر اپنی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔

بی این ایم کی برلن کانفرنس جاری ہے۔کھانے کے وقفے کے بعد اگلا سیشن شروع کیا گیا جو بلوچستان کے وقت کے مطابق رات 8 بجے تک جاری رہے۔اگلے سیشن میں بلوچستان میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں اور بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری کے موضوع پر خیالات پیش کیے جائیں گے۔اگلے سیشن میں نامور اسکالر عائشہ صدیقہ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ، بی ہیومین رائٹس کونسل کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ اور دیگر خطاب کریں گے۔