حضورِ والا! چلیں کچھ نیا کرتے ہیں ۔ یوسف بلوچ

416

حضورِ والا! چلیں کچھ نیا کرتے ہیں

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہر گونج رہی تھی، تو کسی نے مڑ کر پوچھا، چل کیا رہا ہے؟ جان، پہچان آئے روز اسی گّلی کا مسافر، خاصہ چالاک سائیں نے مڑ کر جواب دیا، یار کوئی اسے فوٹو بیچنے والا سمجھتا ہے لیکن عجیب منطق ہے فوٹو رو کے بیچتا ہے۔ پوچھنے والا اچانک کھڑا ہوا۔ سوچ کے فرمایا شاید گاہک آنے کی معیار روایتی دکانداروں سے زیادہ ہے۔ چل بھئے ہم بھی رو کے دیکھتے ہیں۔

اس دکاندار کی تصاویر کبھی نہیں بکتی ہیں۔ آئے روز سامنے اسی ترتیب دیے گئے لائن پہ پڑے ہیں۔ گاہک بھی وہی ہوتے ہیں جو ان تصاویر کا مالک ہوتے ہیں۔

بس انجان اور ہر پہلو سے ہم سے جدا کاروباری سیٹھ کیا جانیں آنسوِ معیار کی قیمت۔ اچھا یہ بھی ٹھیک ہے کہ ماما کے کیمپ میں بیٹھنے کے بعد لاپتہ ہونے کا سلسلہ نہیں رکا یا تمام لاپتہ افراد واپس نہیں آئے ہیں لیکن ماما کا وژن سادھا ہے اور مشن بھی سیدھا۔

جلیل ریکی لاپتہ ہوئے تب بھی ماما کیمپ میں تھے، انجینئر ظہیر و آٹھ بلوچ کی مسخ لاش ملی تب بھی ماما کیمپ میں ایک ہاتھ سے تسبیح اور دوسرے سے وکٹری دے رہا تھا۔ ماما کے پیروکار، ہمدرد اور خائف بھی ماما کی طرزِ مزاحمت پہ تند و تیز تیر برسانے کے لیے راستے نہیں ڈھونڈ پاتے۔ اور ماما آواز ہی اٹھا سکتا ہے۔ ہمدرد بن کے آنسو، کرب کو کیمپ میں آواز فراہم کر سکتا ہے اور بس۔

دوسری منطق دیکھئیے جناب۔ ووٹ سے آئے نمائندہ اگرچہ تھوک کے تمیں کہہ چکا کہ ہم جوابدہ نہیں لیکن پھر بھی دو ہزار اٹھارہ میں بڑی محنت سے پانچ ہزار لاپتہ افراد کے نام قومی اسمبلی میں جمع کر چکا ہے۔ اٹھارہ سے بائیس تک پانچ ہزار میں سے کچھ بازیاب ہو چکے ہیں لیکن پھر ہزار لاپتہ کیے گئے ہیں۔ کچھ کی لاش ملی ہے، کوئی کمبخت بھیس بدل کے انتہائی سخت سیکورٹی حصاروں سے باحفاظت دیواروں سے چھلانگ لگا کر زیارت میں مسلح تنظیموں کی جنگ میں حصہّ ڈال کے، دس دس گولیوں کے ساتھ نبردِ آزما ہو کر قاتل و اغواکار پائے گئے ہیں ایک ساتھ۔

کمال دیکھئیے، ایک دن عقوبت خانے سے نکل کر کتنی بڑی پلاننگ کر ڈالی۔ کیونکہ نہ ان کی بھیس باغی جیسا نہ چہرے باغیوں کے۔ بس اشتہار، اخبار میں باغی رے باغی رے، زبردستی باغی رے۔

خیر بی این پی کے لسٹ میں ان کا اندراج اس لیے بھی نہیں ہو پایا کیونکہ ان میں سے کئی ایک، دو رواں سال جبری لاپتہ کیے گئے ہیں۔
اب مجھے تو کوئی منطق نہیں مل رہا۔ یار پانچ ہزار کا لسٹ میں نیا کیا ہوگا کہ ہر سال نئی لاپتہ افراد و ماورائے قانون قتل کرنے کے علاوہ۔
اگر لسٹ میں یہی عمل درآمد کرنا تھا سرکار نے۔ تو رہنے دیتے کیونکہ فہرست میں وہی مقتول ہیں جن کا دو ہزار اٹھارہ کی نکات سے بلواسطہ اور بلاواسطہ ہی نہیں کوئی تعلق۔

اگر لسٹ جمع کرنے کا نتیجہ وہی پرانا اور کچھ لواحقین کے لیے نیا ہے تو بھی رہنے دیتے۔ نہ بلوچ کو اسی طرز کے عملدرآمد کی ضرورت ہے اور نہ ہی فہرستوں کی۔ اور اگر لسٹ پر عمل درآمد کرواکر ہمیں لاشیں سونپنے والوں کے لیے احتساب کا آپشن ہم تخلیق نہیں کر سکتے تو ایوانوں میں بیٹھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

بس ہم تو کہتے ہیں آگے بڑھیں، آپ پیچھے آئیں اور ماما کے ساتھ تسبیح لگا کر وکٹری کا نشان بناتے رہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں