28 مئی یوم بلوچستان میں یوم سیاہ کی حیثیت رکھتا ہے – بی این ایم ،این ڈی پی

571

پاکستان اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا تھا۔

پاکستان کے دیگر صوبوں میں اٹھائیس مئی کو یوم تشکر یا یوم تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں گذشتہ کئی سالوں سے بلوچ قوم پرست اس دن کویوم سیاہ اور یوم مذمت کے طور مناتے ہیں۔ بلوچ قوم پرستوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحت حاصل کرنے کے بعد سے بلوچوں کے خلاف زور آزمائی شروع کر رکھی ہے ۔

بلوچستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کی طرف سے بلوچستان میں ایمٹی دھماکوں کے خلاف پمفلٹ شائع کیا ہے۔ پمفلٹ میں لکھا گیا ہے کہ بلوچستان کو ایک ایٹمی تجربہ گاہ میں تبدیل کرنے کی اہم وجہ پاکستانی قبضہ گیریت اور بلوچ قومی غلامی ہے۔

بی این ایم کی طرف سے شائع کردہ پمفلٹ کے مطابق دنیا میں جہاں بھی ایٹمی دھماکہ کیا گیا یا ایٹمی حادثہ رونماء ہوا تو وہاں تابکاری کے اثرات کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے لیکن بلوچستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، صرف جوہری تجربات تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان نے اپنی فوجی طاقت کے ذریعے بلوچستان میں اپنے ایٹمی اثاثے بھی ذخیرہ کرلیے ہیں۔ ایٹمی تابکاری کی صورت میں بلوچ عوام اس سے شدید متاثر ہوسکتی ہے۔

پمفلٹ میں لکھا گیا ہے پاکستان ایک غیر قانونی جوہری ہتھیاروں کی ریاست ہے جسے ایٹمی ملک بنانے میں امریکہ جیسے ممالک کی حمایت حاصل تھی لیکن آج پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے دنیا شدید تشویش لاحق ہے پاکستان نہ این ٹی پی کا رکن ہے اور نہ ہی پاکستان نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کیے ہیں بلکہ آج پاکستان انہی ایٹمی اثاثوں کے بل بوتے پر دنیا کو بلیک میل کررہا ہے اور یہ تاثر دے رہا ہے کہ اگر پاکستان کے ایٹمی اثاثے شدت پسندوں کے ہاتھوں لگ گئے تو دنیا تباہ ہوجائے گی۔

پمفلٹ کے مطابق اسلامی عقائد کے مطابق قیامت تب ہوگی جب فرشتہ اسرافیل صور پھونکے گا اور اس کی پہلی آواز اتنی بھیانک ہوگی کہ دنیا تباہ ہوجائے گی لیکن قیامت سے قبل بلوچ عوام نے 28 مئی 1998 کے دن قیامت کا منظر قریب سے دیکھا جب بلوچستان پر مسلط ریاست پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے جس کے منفی اثرات سے چاغی اور گرد نواح کے عوام آج بھی متاثر ہورہے ہیں۔

اٹھائیس مئی 1998ء کے روز بلوچستان کے علاقے چاغی میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں جوہری طاقت بن گیا تھا۔ جوہری تجربات کے لیے ایٹم بم چاغی کے علاقے میں کوہ کامبران میں کھودی گئی خصوصی سرنگ میں نصب کیے گئے تھے۔ اس سرنگ کو 26 مئی 1998ء کے روز دھماکوں سے دو دن قبل بند کر دیا گیا تھا۔ بعد میں 28 مئی کو سہ پہر تین بجے کے قریب یہ دھماکے کیے گئے تھے، جن سے گہرے بھورے رنگ کا حامل کوہ کامبران پہلے سفید اور بعد میں تیز خاکی رنگ میں تبدیل ہو گیا تھا۔

واضح رہے کہ 1998 میں مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی اور بلوچستان میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ تھے۔ کئی بلوچ حلقے اس کی ذمہ دار بی این پی اور اختر مینگل کو قرار دیتے ہیں بقول ان کے ان میں بی این پی برابر شریک ہیں۔

بلوچ قوم پرستوں کا موقف ہے کہ 28مئی 1998کو بلوچستان کے علاقہ چاغی میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان نے ناصرف چاغی بلکہ پورے بلوچستان کے فضاء کو زہر آلود بنایا ہے۔

قوم پرستوں کا موقف ہے کہ 28مئی1998سے لے کر اب تک دھماکوں کی وجہ سے چاغی سمیت بلوچستان بھر میں جان لیوا بیماریوں نے انسانی بقاء اور زندگی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے، جبکہ چاغی اور ملحقہ علاقوں کے درجہ حرارت میں ماضی کی نسبت زیادہ شدت نظر آتی ہے، جبکہ ان علاقوں کو کیمیائی خطرناک بادلوں کا مسلسل سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے 28 مئی چاغی کے دامن راسکوہ میں ایٹمی دھماکہ کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 28 مئی 1998 کا دن بلوچ قوم کیلئے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جا رہا ہے۔ اسی دن اقتدار پر براجمان حکمرانوں نے بلوچ قوم کے مستقبل کی اور نہ ہی ایٹمی دھماکے کے بعد مہلک اور خطرناک بیماریوں کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنی وفاداری اور اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے راسکوہ کے پہاڑوں پر دھماکہ کرکے اس خطے میں بسنے والے بلوچوں کے زندگیوں کو اجیرن بنا دیا گیا۔ آج بھی اس علاقے کے لوگ بھوک، مفلسی سمیت خطرناک قسم کے بیماریوں کا شکار ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوکر جانبداری کا مظاہرہ کرکے ریاست پاکستان کو اس قسم کے ہتھیاروں کے استعمال سے روکا نہیں گیا اور نہ ہی آج تک اس حوالے سے ریاست سے جواب طلبی کی گئی، ہم سمجھتے ہیں کہ مہذب دنیا سمیت اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جیسے اداروں کی خاموشی کی وجہ سے وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں لہٰذا مہذب دنیا سمیت اقوام متحدہ اور ان کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی اجنسی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو چاہیے کہ وہ چاغی کا دورہ کرکے ان تمام مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے پوری دنیا کو رپورٹ کریں۔