لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج کع 4602 دن مکمل

201

لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4602 دن مکمل ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او پجار کے چیئرمین زبیر بلوچ، سی سی ممبر سمرین بلوچ ، بلوچ، ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ طیبہ بلوچ اور دیگر شامل تھیں۔

اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ خفیہ ادارے اور حکمران ایک خاص منصوبے اور حکمت عملی کے تحت بلوچ جہد کے خلاف بروئے کار لانا تھا تاکہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ اور پارلیمانی گماشتوں کے ذریعے بلوچ جہد کی عالمی مقبولیت و پذیرائی کو کاونٹر کی جاسکے اور داخلی طور پر پر امن جدوجہد کو روکنا ہے، جس کے تحت بلوچ فرزندوں کا اغواء بلوچ نسل کشی میں تیزی کے ساتھ سیاسی کارکنوں کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔ صاحب حکمران بلوچ نسل کشی میں سرکاری وفاداری نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، بلوچ جبری لاپتہ افراد کو شہید کرکے اجتماعی قبروں میں پھینک کر اپنی وفا کو انسانیت سے اونچا مقام دینے والے حکمران بلوچ نسل کشی فرزندوں کے اغواء گھروں پر بمباری میں ایک پل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جس میں طلبا سیاسی کارکنوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ورکروں کو چن چن کے انہیں شہید کیا جا رہا ہے. بلکہ ان کے رشتہ داروں سے لیکر تمام شعور یافتہ اور ہر مکاتب فکر کے کے لوگ انکے نشانے پر ہیں، خاص طور پرتعلیمی اداروں میں چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی جبر سے نظریاتی اور سیاسی کارکنوں کےحوصلے پست نہیں کیے جا سکتے کوہلو، پنجگور، مستونگ، خاران، ڈیرہ بگٹی اور تربت سے بلوچ فرزندوں کے اغواء کا تسلسل پاکستانی ظلم و تشدد کی نا قابل تردید مثالیں ہیں۔