چراغ بَتی ۔ نعمان بلوچ

677

چراغ بَتی

تحریر: نعمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آنکھیں کمزور ہونے کی وجہ سے میں کلاس روم میں داخل ہونے کیلئے وقت سے پہلے آنے کی کوشش کرتا، تاکہ سامنے بیٹھ کر وائیٹ بورڈ کو قریب سے دیکھ سکوں جس سے الفاظ دیکھنے اور سمجھنے میں مشکلات درپیش نہ ہوں۔ ہمارے نئے نئے کلاسز شروع ہوچکے تھے ۔ طلباء کی تعداد بھی ویسے بڑھ رہی تھی۔ کسی ایک کلاس میں بیٹھنا دشوار ثابت ہوتا تھا۔ ایک دن کلاس ختم ہونے سے پہلے کچھ اسٹوڈنٹس کلاس روم کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ جیسے ہی سر نے کلاس ختم کی ، طلبا بھاگ کر اندر آنے لگے۔کچھ طلبا ایک دوسرے کو عجیب و غریب ناموں سے پکار کر اُنکی طرف جارہے تھے۔ کچھ طنزیہ انداز میں ایک دوسرے کا مذاق اڑارہے تھے ۔ کلاس میں انکے دوڑنے کی وجہ سے مِٹی دھول اوپر اٹھنے لگا تھا۔ ایسے میں جھٹ سے میرے ساتھ ڈیسک پر ایک نوجوان بیٹھ گیا۔ جب میں نے اُس نوجوان کی جانب دیکھا تو وہ بھی میری طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔ خوبصورت چہرے، سر پر چھوٹے بال اور آستین فولڈ کرکے اپنا نوٹ بُک ڈیسک پر رکھ کر ، دو پین اپنے جیب سے نکال کر بیٹھ گیا۔

میں اُس کی جانب دیکھ رہا تھا جبکہ وہ سر کے انتظار میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کمر پر تھوڑا سا پسینہ لگا ہوا تھا۔ پیشانی پر بھی تھوڑا بہت پسینا تھا جیسے کوئی مزدوری کرکے آیا ہو۔ ویسے اس کے پیشانی پر پسینے تھا، سر کے آنے سے پہلے ہی وہ اپنے پیشانی سے پسینہ صاف کرنے لگا۔ پھر سے میری جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہنے لگا “سر صہب ئنا سے بفک (یعنی سر کتنا دیر ہوگیا کہ اب بھی نہیں آرہا” ۔ میں خاموش بیٹھا تھا چونکہ اُس نوجوان کو میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ بات کرتے ہوئے اُسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اس کے معصومیت اور روشن دلی کو نموادر کررہا تھا۔

جیسے ہی سر کلاس میں داخل ہوا لیکچر شروع ہوگیا۔ سر بھی باکمال تھے ، جب لیکچر شروع کردیتے تو تمام طلبا حتی کہ وہ طلباء جو گھر سے دباؤ کی وجہ سے ٹائم پاس کرنے آتے بڑے غور سے سر کو سنتے مگر یہ نوجوان جیسے سر کے لیکچر میں گم ہی ہوگیا تھا۔ کافی حاضر دماغ اور سوال کے جوابات دینے میں تاخیر نہیں کرتا تھا۔ خیر جیسا بھی تھا یہ نوجوان معصوم شکل پہ ہلکی مسکراہٹ سے جبکہ سرمئی کلر کے کپڑوں میں بہت ہی دلکش لگتا۔ لیکچر نوٹ کرتا اور سوالات پوچھتا رہتا تھا ۔ یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں جتنے دن تک اکیڈمی جاتا رہا اسے سامنے بینچ پر بیٹھنےکی طاق میں دیکھا۔ یہ اس لئے کہ ہم بائیولوجی کے اسٹوڈنٹ تھے اور وہ میتھس کے۔ جبکہ پہلا لیکچر فزکس کا تھا اور مشترکہ ہوا کرتا تھا ۔ ہمارے بیچ کبھی کبھار بات ہوتا رہتا تھا۔

میرا ایک دوست اُس نوجوان کا ایک قریبی دوست ہوا کرتا تھا۔ ایک دن مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ” سنگت میتھس کا اک اچھا اسٹوڈنٹ ہے، محنتی اور لگن سے پڑھنے والا لڑکاہے”- واقعی وہ دوست درست تھا، جتنا مجھے انداذہ تھا یہ نوجوان پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والا تھا۔

ایک دن باتوں باتوں میں اس نوجوان سے مخاطب ہوا کہ کسی نے آپ کے بارے میں کہا کہ آپ میتھس کے اچھے طالبعلم ہیں، مگر متھس میرے سر سے دو فٹ اوپر سے گزرجاتا ہے ۔ کیا وجہ ہوسکتا ہے ؟
نوجوان مسکرا کر بولنے لگا دلچسپی کی بات ہے ۔ جیسے آپ لوگ نروس سسٹم وغیرہ پڑھتے ہو وہ بھی اِسی طرح میرے سر کے اوپر سے گزرجاتے ہیں۔ ہم دونوں اسی بات پر ہنسنے لگے ۔

وہ مجھ سے پوچھنے لگا آپ MBBS کا سوچ رہے ہو یا کچھ اور ، میں نے تھوڑی دیر خاموش رہ کر نفی میں جواب دیا ۔ آگے سے وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میں بولنے لگا۔ ہمارے ہاں دو ہی مقبول رجحانات ہیں۔ جنہیں میتھ سمجھ آجائے وہ انجنیئرنگ پڑھیں گے اور جن کو بیالوجی میں دلچسپی ہوگا وہ ڈاکٹر بنیں گے ۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا ہیکہ میں میڈیکل تو نہیں پڑھونگا البتہ بیالوجی کا دامن نہ چھوڈونگا ۔ اپنے بارے میں اسرار کرتے ہوئے کہنے لگا میں میتھس کا اسٹوڈنٹ ہوں لیکن میں انجینئرنگ نہیں کرونگا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہاکہ شکر ہے کوئی تو ہے جو اِن رجحانات سے ہٹ کر سوچتا ہے ورنا سب بیروزگار انجنئیر ہی بنیں گے اور ڈاکٹر ۔

میں نے ان کے بارے میں سنا تھا کہ معاشی حالت بہتر نہیں اور وہ نوجوان خود کفیل ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت تعلیمی اخراجات پورا کرتا ہے ۔ ساتھ میں اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئی ہے ۔ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہا ہے ۔ میں ان کو مشورہ دے رہا تھا کہ آپ CA کریں ۔ اس سے ایک تو آپ کی مالی حالت کچھ بہتر ہوگی جبکہ معاشی علوم پر بھی آپکو عبارت حاصل ہوگی، اور اپنے جیسے 200 طلباء کو بھی پڑھا سکوگے ، ایسے میں اپنے قوم کیلے بہتر خدمات بھی سر انجام دے پاؤگے ۔

چونکہ ان کے زہن میں CA کے حوالے شاید پہلے سے کوئی معلومات نہیں تھے اس لئے مزید فیلڈ سے متعلق مجھ سے سوالات پوچھنے لگے۔ وہ پوچھتا رہا اور ہم ہنسی مذاق کرتے رہے۔

بعد میں شاید اس نوجوان کو کیمسٹری میں زیادہ دلچسپی ہونے لگا تھا۔ لیکن میں نے آگے سے اکیڈمی جانا چھوڑدیا تھا ۔ اُس نے ذہنیت بنا لیا تھا کہ وہ آرگینِک کیمسٹری میں PHD کرنا چاہتا ہے۔

ایک دن میں اور میرے ہمراہ ایک دوست انگلش کے کلاس کو بَند کرکے باہر بیٹھ کر باتیں کررہے تھے۔ جیسے ہی انگلش کا پیریڈ ختم ہونے والا تھا ۔ ہم دونوں کلاس کی جانب جانے لگے۔ یہی نوجوان باہر کھڑا ہوا تھا ۔ اُن سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ انہیں “فیس” ادا نہ کرنے کی بناء پر کلاس سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ یہ معمہ اُس نوجوان کے ساتھ اکثروبیشتر ہوتا رہتا تھا ۔اس مُسکراتے ہوئے معصوم چہرے سے میری آخری ملاقات پچھلے سال فرسٹئیر کے پیپرز کے دوران امتحانی حال میں ہُوا تھا _ مجھ سے سپریڈنٹ نے میرا پیپر چھین لیا تھا کیونکہ آئی ڈی کارڈ میں میرا چہرا صاف نظر نہیں آرہا تھا جبکہ کالج کا رُخ کبھی کیا ہی نہیں تھا اور کالج میں مجھے کوئی جانتا بھی نہیں تھا، نہ ہی میرے پاس کالج کا اسٹوڈنٹ ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت تھا ۔ اور اِسی بناء پر مجھ سے میرا پیپر چھینا گیا اور مجھے لکھنے نہیں دیا گیا یہ کہہ کر کہ میں ڈبلیکیٹ بیٹھ کر کسی دوسرے شخص کیلئے پیپر دے رہا ہوں۔ میں اپنی وکالت میں سپریڈنٹ سے بحث کرنے لگا مگر کسی نے ایک نہیں سنا۔ میں چُپ چاپ پریشانی کی کیفیت میں اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر باقی طلباء کو دیکھ رہا تھا جو اپنا پییر کررہے تھے ۔ پندرہ منٹ گزرنے کے بعد سپریڈنٹ دوبارہ میری جانب آنے لگا اور باقی ماندہ طلباء سے پوچھنے لگا کہ کیا کوئی مجھے جانتا ہے؟ میں کون ہوں ؟ کس کےلئے پیپر دے رہا ہوں ؟ باقی تمام طلباء سپریڈنٹ کے بات کو نظر انداز کرکے اپنا پیپر کرنے میں مگن تھے کہ تین ڈیسک چھوڑ کر چوتھے ڈیسک سے کسی نے آواز دی ! جی سر میں اِسے جانتا ہوں ۔ یہ اکیڈمی میں ہمارا کلاس فیلو تھا ۔ سپریڈنٹ اُسی نوجوان کی جانب بڑھ کر ان سے میرے متعلق سوالات پوچھنے لگا۔ کہ اِس کا نام کیا ہے؟ کس کے لئے پیپر دے رہا ہے ؟ ابھی یہ نوجوان خاموش ہوگیا اور اپنا پیپر کرنے لگا ۔ کچھ دیر بعد سپریڈنٹ نے مجھے میرا پیپر سونپ کر واپس اپنے جگہ چلا گیا۔ وہی نوجوان دوبارہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ” سنگت دافتون بحث کپہ (دوست اِن سے بحث نہ کرو) ”

خیر پیپر ختم ہونے کے بعد میں نے اس سے پوچھا ۔ بھائی آپ بیچ میں کیوں خاموش ہوگئے ۔ ایک وقت میں میرا حوصلہ پست ہوگیا کہ اب میرا مسئلہ ختم ہوگیا تم واپس کیوں خاموش ہوگئے ؟ وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا دراصل بات یہ ہیکہ میں خود بھی ڈبلیکیٹ ہوں کسی اور کےلئے پیپر دے رہا ہوں مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرا ایڈمٹ کارڈ چیک کرکے مجھے باہر نہ نکالا جائے ۔

اس نوجوان کے ساتھ میری آخری ملاقات تھی۔ اسکی ایک بہترین خوبی یہ تھی کہ وہ نوجوان اپنے کمزور دوستوں کو پڑھاتا تھا۔ انکی رہنمائی کرتا تھا تاکہ اچھی طرح انکے کنسیپٹ بِلڈ اَپ ہوں۔

دن گزرتے گئے ۔ ہفتے ، مہینے اور پھر سال مگر نوجوان سے دوبارہ میری ملاقات نہیں ہوئی۔

جمعہ کا دن تھا ایک دوست کے ساتھ پڑھائی کرکے میں گھر آکے جلدی سو گیا تاکہ پوری رات بیٹھ کر میں پڑھ سکوں ۔ نیند سے جاگنے کے بعد میں موبائل نوٹیفکیشن چیک کررہا تھا ایک دوست نے اپنے اسٹیٹس پہ اس نوجوان کا تصویر لگا کر کیپشن میں لکھا تھا کہ ” یہ اب ہم میں نہیں رہے مزید لکھا تھا کہ غربت و کسمپرسی کی حالت میں ہونے کی وجہ سے اِس نے اپنے گلے میں رسی ڈال کر اسی سے خودکشی کرلی۔”

میں نے مزید ایک اور دوست سے معلوم کرنا چاہا تو اس نے بھی یہی کہا ” جی ! حقیقت ہیکہ اُس نے غربت اور تعلیمی اخراجات پورا نہ کرنے اور امتحانی فیس ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے خود کشی کی ہے ۔ یقیناً ایسے سخت اوقات سبھی پر آتے ہیں مگر خودکشی اِن مسائل کا حل نہیں ہے۔

حقیقت میں بات کچھ اسطرح ہیکہ نفسیاتی ماہرین لکھتے ہیکہ ” کبھی کبھار انسان باطنی مشاہدات کو دوسروں تک نہیں پہنچاسکتا جو ایک فرد پر طاری ہوتی ہیں، کبھی کبھار انکا اظہار خودکشی کی صورت میں کرتے ہیں ۔

یوں تو عرفان کے خود کشی کی وجوہات کہی موضوعات جنم دیتا ہے ۔ ہر موضوع کے الگ پہلو ہیں۔ جیسے، بلوچ قومی غلامی/ محکومی / سرمیادارانہ نظام / سامراجیت / نوآبادیت / فرسودہ نظام / فرسودہ سماج وغیرہ ۔

میں سمجھتا ہوں یہاں غور طلب بات یہ ہیکہ آج وہ لوگ بھی مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہونگے جو عرفان کو محض فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے کلاس سے نکالتے رہے ۔ ان معنوں میں یہی لوگ تعلیم کو معاش سمجھ کر بیچنے والوں کو “سوفسٹ” کہا جائے تو کسی حد تک میں غلط نہیں ہوں۔ یہی لوگ فیسبک پر پوسٹ کرکے لکھتے ہیکہ “لینن نے فلاح کتاب سرمایہ دارنہ نظام پر لکھا ہے سب کو پڑھنا چاہئے”
اپنی انفرادی حیثیت کو بَڑھانے کیلے ۔ لینن ، مارکس ، سارتر ، گرامشی کے لکھے الفاظ کو میٹھے الفاظ میں دہرا کر خود کو تیسری دنیا کا فرد ظاہر کرکے تھکتے نہیں ۔

اگر کوئی شخص سرمیادرانہ نظام کو پڑھ کر سمجھ کر پرکھ کر بھی عرفان کو نہیں بچا سکتا ہے تو اس شخص کی کتابی باتیں خود کو عابد، مہربان، حاجی ثابت کرنے کے علاوہ اور کیا فائدہ ؟

آج بھی کئی طلباء ایک ایک پیسہ جمع کرکے کوئٹہ انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنے کیلےجاتے ہیں اور اپنا فزکس خضدار کے بہترین اُستاد کے ساتھ پڑھ کر مضبوط کرنا چاہتے ہیں، پھر یہی لینن نما حضرات انہی غریب طلبات کو فزکس سبجیکٹ کی خاطر بلیک میل کرکے اپنا پورا فیس وصول کرنے کے ضد پر تُلے ہوئے ہیں۔

کئی لوگ عرفان کی خودکشی کو سماجی برائیوں کا سبب قرار دیکر اپنے زمہ داریوں سے بری الزمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ شاید بقول انکے یہ سماج ہی گندہ ہے ۔

لیکن ! میری بات پر غور کرنا، یہ سامراجی بولی نہ بولو ۔ عرفان کا قاتل یہ ریاست ہے ۔ کرپٹ حاجی حضرات ہیں ۔ کرنل جرنل اور غلامی سے سمجھوتہ کرنے والے سرادر ، میر حضرات ہیں ۔ یہ ریاست بلوچ ہونے کی پاداش میں اُن نوجوانوں کو قتل کررہا ہے ۔ شاید بلوچستان دنیا کا واحد خطہ ہو جہاں انکے باشندوں کو تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں قتل کیا جاتا ہے ۔ انکے لٹریچر ۔ لائبرریز کو جَلایا جاتا ہے ۔ یہاں اساتذہ کو اسی لئے قتل کرتے ہیں کہ وہ تعلیم علم و آگاہی پھیلانا چاہتے ہیں۔

جیسے فینن ۔ “psychology of colonialism” میں سماج کی مثال دیکر کہتا ہیکہ فرض کریں ” اگر کسی لائن میں مزدور ، غریب لوگ کھڑے ہوکر فنڈ لے رہے ہوں وہاں دھوپ، دھول، دھکوں کی وجہ سے انکو غصہ آجاتا ہے ۔ لیکن یہ لوگ غصہ اسی فرد پر نہیں کرتے جو انکو ایک قطار میں کھڑا کردیتا ہے بلکہ غصہ ایک دوسرے کو مار کر دھکہ دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں”

خاموش تماشہ لوگ !
سنو ! کسی بھی سماج میں تبدیلی بہتری ہمیشہ انفرادیت کا سفر طے کرکے پھر اجتماعیت تک پہنچتا ہے ۔ ایک مثال کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں جیسے اگر کوئی فرد کہتا ہیکہ سماج برا ہے گھنٹوں طویل لیکچر دیکر قصہ ختم کرتا ہے ۔ درحقیت جب تک وہ فرد خود عملی طور پر پیشقدم نہیں ہوگا وہ ان مسائل کے حل کیلے قدم نہیں بڑھائیگا سماج کبھی آٹومیٹکلی بہتر نہیں ہوسکتا یے ۔ آج ہم جس سماج میں بسر زند ہیں۔ قطعاً ماضی میں ایسے واقعات ہمارے سماج میں دیکھنے کو نہیں ملتے ۔ آج اگر ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں تو اسکا میرے نزدیک ایک ہی وجہ ہے نوآبادیات/ غلامی / محکومی ہے ۔

جس بھی خطے سے سامراجی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔ وہاں کبھی جمہوری ، فلاحی سماج قائم نہیں ہوسکتا ہے ۔ بلکہ یہ ناممکن ہے ۔
آج ہم کیوں تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ اِنہی سرمایایہ داروں کی وجہ سے کئی عرفان گوانے پر تلے ہوئے ہیں؟ اگر تسلیم کربھی چکے ہیں تو عملی ہم کیا کررہے ہیں؟

نادان لوگ!
غور کریں، ہم اِس خطے کے باشندے ہیں ۔اِس سرزمین کے وارث ہیں ۔ جہاں 17 فٹ زمین کھودنے سے تیل کے زخائر مل سکتے ہیں۔ گیس کے کئی زخائر ، کرومائٹ ،کرومیم ، قیمیتی پھتر ، قیمتی مٹی ، یاقوت ، ہیرہ سونا، ریکوڈک موجود ہے ۔ یہ وہی خطہ ہے جسکی جیوپولٹیکیل اہمیت اپنی جگہ دنیا اسے ایک گیٹ وے سمجھتا ہے ۔ مگر افسوس ! یہاں ایک ہونہار طالب علم اس لئے خودکشی کرکے اپنی جان دیتا ہیکہ تین ہزار امتحانی فیس جمع نہیں کرسکتا ہے ۔

یقیناً عرفان کو سپرد خاک کرنے کیلے جب اس دھرتی کو ٹریکم ( ایک اوزار جس سے زمین کھودا جاتا ہے) سے کھودا جائیگا ۔ اسکے جسم کو لحد میں جگہ دینے لگے قبر کے کناروں کو تراشا جائیگا وہاں سے جو مٹی اٹھیگی ۔ وہی مٹی سامراج نوآبادکار کے آنکھوں میں جاکر اسکو اندھا کرنے کیلے کافی ہوگا ۔ بشرطیکہ ہم اصل مسئلے کو زیر توجہ لے آئیں ۔

یہی مٹی محض سامراج کو اندھا نہیں کریگا ۔ البتہ ۔ “لینن نما” حضرات کے چہرے پر لگ کر ان کو آئینے کے پاس لیجانے کیلے کافی ہوگا ۔ جب وہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھیں گےتو اسی دھول مٹی سے انکا منفی انئیت تعصب انکو نظر آئیگا مزید اگر وہ غور کرینگے تو انکو پروفیسر رزاق کے فلسفہ رزاق ازم کو دوبارہ زندہ کرنے کیلے یعنی طلباء کے ساتھ تعاون غلامی سے نفرت کا عنصر ضرور ملیگا ۔

آج عرفان جس خاک میں دفن ہے ، وہاں سے چراغی بتی کے مانند مجھے روشنی اور خوشبو دونوں تاحیات محسوس ہوتی رہیگی ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں