میں نیشنلزم پہ کاربند کیوں ہوں؟ ۔ مہر جان

657

میں نیشنلزم پہ کاربند کیوں ہوں؟

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

سنہ اڑتالیس سے ‎ریاستی دانشوروں کا کردار ہمیشہ ان تمام افعال کیلئے جواز مہیا کرنا رہا ہے جو محکوم و مفتوح قوموں پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔ یہاں بھی اگر ان کا کردار دیکھنا مقصود ہو تو پہلی بات ہمیں یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست پاکستان نے ریاست قلات پہ بزور شمشیر جب قبضہ کیا تو اب ان دو ریاستوں کے درمیان محض “اختلاف” نہیں بلکہ “تضاد”موجود ہے، یہ تضاد بقول ماؤزے تنگ پرولتاریہ اور بورژوا طبقے کے درمیان والا تضاد نہیں کہ جس کا حل سوشلسٹ انقلاب ہو، نہ ہی عوام الناس اور جاگیردارنہ نظام کے درمیان والا تضاد ہے کہ جس کا حل جمہوری انقلاب ہو بلکہ یہ تضاد نو آبادیات اور سامراج کے بیچ کا تضاد ہے جس کا حل بقول ماؤزے تنگ “قومی جہد”ہے ، جبکہ کالونیل ریاستی دانشور اس تضاد کو محض اختلاف جیسی بھی اہمیت نہ دے کر قبضہ گیریت و سامراجیت کو جواز دے رہے ہیں دوسری طرف قومی جہد و قومی شعور وہ واحد ہتھیار ہے جو اس تضاد کو اولین حیثیت دے کر ابھارتا ہے اسی لیے ریاستی اجارہ داری کو شروع دن یعنی سن اڑتالیس سے سب سے بڑا خطرہ قومی شعور و قوی جہد سے رہا ہے ،جو مختلف پانچ مراحل میں بلوچ قومی راہنماؤں کی بدولت عمل پذیر ہے۔

قوم پرستی کو کچلنے کے لیے کالونیل ریاست مختلف حربے ( علاقاہیت ، لسانیت ،گروہیت و طبقات) استعمال کرکے بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کا خواہاں رہا ہے چونکہ کالونیل ریاست کی بنیاد جبر ہے اسی جبر کو رضامندی میں بدلنے کے لیے کالونائزر دانشور صف اوّل کا کردار ادا کرتے ہیں ان کے پاس تاریخی ، سیاسی ، اخلاقی و قانونی جواز کی بجاۓ صرف طاقت کا جواز ہوتا ہے جسے وہ ہر ممکن حد تک اخلاقی جواز میں بدلنے کی سعی کرتے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ اخلاقی برتری ہر حوالے سے محکوم کے پاس پہلے موجود ہوتی ہے کہ وہ اپنی قومی جہد کو واضح قومی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھاتے ہیں ، اس پورے مرحلے میں کالونائزر دانشور بغیر کسی اخلاقی برتری کے فقط لفظوں کی جگالی یا اصطلاحات کی بوچھاڑ سے یہ رضامندی حاصل کرنے کی ناکام تگ و دو کرتا رہتا ہے۔

اس ریاستی جبر کی بنیاد رکھنے اور اختلاف جیسی بھی نہ اہمیت دینے میں تقریباً سارے مکاتب فکر (دائیں بائیں ) کے دانشور یکساں طور پہ شریک جرم رہے ہیں ، بڑے سے بڑا افسانہ نگار جو ریاست کے لیے ہندوستان کو ” یزید” بنا کر افسانے لکھے یا بڑے سے بڑا شاعر جو ترقی پسندی کے علمبردار ٹہرے یا بڑے سے بڑا لبرل ریاستئ جبر پہ خاموش تماشائی بنے ، زاہد چودھری کی سیاسی تاریخ ہو،کے کے عزیز کا مرڈر آف ہسٹری ہو، اعجاز احمد کی دانشورانہ مباحث ہو ، منٹو کی تقسیم ہند کے حوالے سے لکھت ہو،انتظار حسین کی ہندوستانی ایٹمی دھماکوں پر فکشن تحریریں ہو، فیض احمد فیض کی شاعری ہو ، یا حمزہ علوی کی ترقی پسندی ہو اس حوالے سے انکی خاموشی تاریخ کے صفحات سے نہ مٹنے والے داغوں کی طرح ثبت ہیں ، سبط حسن جو ترقی پسندی کے حوالے سے امام مانے جاتے ہیں ، آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ اس کالونیل ریاست کے قیام کو کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں “مملکت پاکستان کو قائم ہوۓ دس سال گذر چکے ہیں اور آج ہم اس متاع عزیز کی جب کہ گیارہویں سال منا رہے تھے ہمیں سب سے پہلے ان ہزاروں لاکھوں جان بازان وطن اور مجاہدین حریت کے قدموں پر پھول نچھاور کرنے ہیں جنہوں نے کشت آذادی کو اپنی خون سے سینچا اور جن کی قربانیوں اور سرفروشیوں کی بدولت آج ہم دنیا میں سرخرو و سربلند ہیں” ایسا نہیں ہے کہ سبط حسن کو بلوچستان میں جاری ملٹری آپریشنز کا علم نہیں تھا لیکن انہیں بلوچستان سے کچھ دور کشمیر نظر آرہا تھا جس کے لیے وہ نہرو سے نہ صرف کشمیر کی آذادی کا مطالبہ کررہے تھے بلکہ محبان کشمیر جن کو گرفتار کیا گیا انکی رہائ کا مطالبہ بھی کررہے تھے ۔

جبکہ دوسری طرف گر کوئی حق علیحدگی کی بات کرتا تو یہ اسے کسی بھی صورت قبول نہیں تھی کیونکہ وہ اسے کسی بھی ریاست کی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے ۔اسی طرح آج بھی ترقی پسندوں کا کشمیر پہ موقف الگ ہے ، بہت سے ترقی پسند نہ صرف انڈیا کے زیر تسلط کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں بلکہ پاکستان کے زیر تسلط کشمیر کو بھی مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں جہاں ابھی تک مزاحمت کی جھلک بھی نہیں دیکھی گئ جبکہ بلوچستان میں جاری مزاحمت جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلوچستان کو مقبوضہ بلوچستان کہنا تو درکنار اس مزاحمت کو دہشت گردی یا انتہاپسندی سے جوڑ دیتے ہیں۔

ریاست کی سالمیت یا قومی بالادستی کے لیے آج ترقی پسند دانشور ریاستی جبر کو عیاں کرنے کی بجاۓ بلوچ قومی جہد کو مختلف حیلے بہانوں سے فاشزم ، قبائلی جنگیں اور سرداروں کے مفادات کا نام دیکر اسے اس کے اصل سے دور لے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً “فقط چند سرداروں کی تحریک” ان کے اعصاب پہ سوار ہے ، یا سامراج ممالک سے روابط و تعلقات کے تناظر میں بلوچ قومی جہد کو فاشزم سے جوڑ دیتے ہیں لیکن تاریخ میں ماؤ زے تنگ کی جاپان کیخلاف قومی متحدہ محاذ میں سامراج ممالک سے اتحاد یا تمام طبقات کی چائنا قومی متحدہ محاذ میں شمولیت اور ماؤ کا واضح پیغام کہ چین و جاپان کا تضاد اصل تضاد ہے اس لیے چائنا کے اندرونی تضاد یعنی طبقاتی تضاد کی حیثیت ثانوی ہے آج اگر بلوچ قوم قومی جہد کے لیے قومی شعور کو اولیت دے اور دوسرے ممالک سے قومی حکمت عملی کے تحت روابط رکھے اس کو بنیاد بناکر اگر بلوچ قومی جہد سامراج حمایت یا تمام طبقات کی شمولیت کی وجہ سے فاشسٹ تحریک ہے تو پھر ماؤ زے تنگ تاریخ میں اس حوالے سے بہت بڑے فاشسٹ ہونگے ، کیونکہ بقول ماؤ زے تنگ “ طویل المعیاد تعاون کے ذریعے طویل جنگ جاری رکھنا ، باالفاظ دیگر طبقاتی جدوجہد کو جاپان کے خلاف موجودہ قومی جہد کے تابع رکھنا متحدہ محاذ کا بنیادی اصول ہے”اسی طرح ان کے فلاسفر جو ھیگل و مارکس سے نیچے بات نہیں کرتے جب ان کے سامنے ٹراٹسکی کا یہودی قومی سوال پہ مؤقف کہ “قومی آذادی سوشلسٹ انقلاب سے پہلے کا مرحلہ ہے “لینن کا نیشنل ازم پہ واضح موقف ، یا ماؤزے تُنگ کا قومی متحدہ محاذ کے حوالے سے موقف سامنے رکھتے ہیں تو وہ بلا تامل کہتے ہیں ہم مقلد نہیں۔ یعنی انُ راہنماؤں کی تقلید ہم نہیں کرتے یعنی ہر معاملہ میں مقلد کے فرائض سرانجام دینے والے بلوچ قومی سوال کے حوالے سے ریاست کے ساتھ کھڑے ہوکر غیرمقلدین و بے روح بن جاتے ہیں جبکہ انقلاب کی روح میں باغی پن ، جرات و مزاحمت پائی جاتی ہے جو مارکس ، لینن و ماؤ کی تحاریر و عمل میں دیکھی جاسکتی ہے لیکن یہاں بےروح لوگ جب انقلاب کی بات کرتے ہیں تو انقلاب اک لطیفہ بن جاتا ہے، میں جب لطیفہ گو لوگوں کے سامنے لینن کی بات رکھتا ہوں تو وہ پہلے یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ لینن نے ایسی کوئ بات کہی ہے جب حوالہ دیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ،آپ لینن کو نیشنلسٹ ثابت کرناچاہ رہے ہیں جبکہ میں کسی بھی صورت لینن کو نیشنلسٹ ثابت نہیں کرنا چاہ رہا بلکہ میں مکمل یقین کے ساتھ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ محکوم اقوام و نو آبادیاتی تضاد کا حل قومی آذادی و قومی جہد ہے جبکہ پورژوا و پرولتاریہ کا تضاد کا حل سوشل ازم ہے، سوشلُ ازم سے پہلے قومی آذادی کو لینن کیسے دیکھتا ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بقول لینن “محض عمومی طور پر نہیں ، مبہم انداز میں نہیں ،بے مغز لن ترانیوں سے نہیں ، سوشل ازم کے قاہم ہونے تک اسے “اٹھا رکھنے” کی بات کرکے نہیں ،بلکہ صاف صاف اور جچےتلے انداز میں سیاسی پروگرام مرتب کرکے مظلوم و محکوم قوموں کی آذادی کا مطالبہ کریں ایک ایسا پروگرام مرتب کریں جو ظالم و جابر قوموں کےسوشلسٹوں کی ریاکاری و بزدلی کو بھی خاص طور پر نظر میں رکھے – ٹھیک جس طرح بنی نوع انسان مظلوم محکوم طبقے کی ڈکٹیٹر شپ کے عبوری دور سے گذر کر ھی طبقوں کا خاتمہ کرسکتا ھے ٹھیک اسی طرح بنی نوع انسان قوموں کے شیر و شکر ہوجانے کی ناگزیر منزل تک تمام مظلوم و محکوم قوموں کی مکمل آذادی یعنی ان کی آزادی علیحدگی کے عبوری دور سے گذر کر پہنچ سکتا ہے۔”

اسی سلسلے کی ایک اور کڑی یہ بھی ہے جب میں پہلی دفعہ رسول بخش رئیس سے ملا جو لمز میں پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں ڈین کے فرائض انجام دے رہے تھے ، تو مجھے فینن کے وہ الفاظ یاد آے “کہ یہ ایک عام سی بات ہے کہ ظالم سفید افریقہ ،کے کسی بڑے شہر کی گلیوں پھرنے والا سیاہ فام افریقہ کا باشندہ دیکھتا ہے کہ بچے اسے نیگرو کہتے ہیں اور افسر اس سے گلابی انگریزی میں مخاطب ہوتے ہیں اور بد قسمتی سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سیاہ افریقہ کے ان طلباء سے جو صحراۓ اعظم کے شمال ثانوی اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، اسکول کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کیا تمہارے ملک میں مکان بھی ہوتے ہیں ، کیا تم جانتے ہو کہ بجلی کیا ہے ؟ “ رسول بخش رئیس کا انداز بھی کچھ اس سے مختلف نہیں تھا جب وہ میرے ایک دوست کی موجودگی میں یہ پوچھنے لگا کہ بلوچستان میں اسمگلنگ کی کیا حالت ہے ، آج کل اسمگلنگ کاروبار کیسا چل رہا ہے ؟ خیر میرے کچھ تلخ سوالات نے گفتگو کا رخ موڑ دیا ، میں نے کہا مسٹر جناح اور گاندھی کو بطور پولیٹکل سائنٹسٹ آپ کیسے دیکھتے ہیں تو اس نے جوابا کہا کہ گاندھی تو ایک منشی تھے اور جناح قائد ، میری بے ساختہ ہنسی نے ماحول کو اور گرم کردیا، میں نے کچھ حوالہ جات کے ساتھ جب بات آگے بڑھائی تو وہ غصے میں صرف اتنا بولا کہ میری باتیں یہی ہے آپ بھلے نہ مانیں، ۔ارشاد احمد حقانی کا رویہ اس وقت کافی دلچسپ لگا جب میں نے پوچھا آپ بلوچستان کے بارے میں کیا جانتے ہیں تو کہا میں زندگی میں فقط دو دفعہ بلوچستان گیا ہوں ، ہارون رشید اور ان جیسے لکھاری تو باقاعدہ بلوچستان میں کچھ عرصہ قیام پذیر بھی رہے، جہاں بلوچستان کے لکھاری انہیں بلوچستان کے صورت حال بتاتے رہے لیکن بلوچستان کی لکھاریوں کی سادگی یہ تھی کہ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ موصوف بلوچ نیشنل ازم کو کاؤنٹر کرنے کے غرض سے بلوچستان کی صورت حال جانچنے کے لیے تشریف لاۓ ہیں ، بعد میں موصوف جنرل کیانی کا اتنا لاڈلے بنے کہ رات کو کیانی جتنی سگریٹ سلگاتے صبح موصوف ان کی تعداد اپنے کالموں کی زینت بناتے ، اوریا مقبول جان یا ان جیسے لکھاری جو بلوچستان پہ ماہر بننے کی سعی ضرور کرتے ہیں لیکن بلوچ نیشنل ازم کا موقف اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے سامنے کوئی بھی ٹھہر نہ سکا ، لبرل حضرات جو برملا اپنے آپ کو فدا بلوچ کے قبیل سے کہتے تھے لیکن صدارتی ایوارڈ (خیراتی ایوارڈ) پہ انہوں نے اس قبیل کی مسخ شدہ لاشوں پہ آنکھوں پر پٹی باندھی ، اجمل کمال جو اپنی شائستگی کی وجہ سے مشہور و معروف ہے بلوچستان پہ شروع ہونے والے مکالمہ میں موصوف نے ایسا ہتک آمیز رویہ اور لعن طعن اختیار کی کہ خدا کی پناہ ، پرویز ہود بھائی جو انٹرنیشنل ازم کا پرچار کرتے نہیں تھکتے ، انڈیا میں اک انٹرویو کے دوران جب پاکستان کی کشمیر دراندازی پہ سوال اٹھایا گیا تو بجائے انٹرنیشنلسٹ شہری ہونے کے ناتے غیر جانبدارنہ اپنی بات رکھتے ، فورا سے پہلے “ہندوستان کی دراندازی بلوچستان میں “ اس معترضہ موضوع کو لے کر پاکستان کی صفائی دینے لگا ، ناصر عباس نئیر جو پوسٹ کالونیل ڈسکورس پہ ایک بہترین مترجم ہیں لیکن وہ اسٹیٹ کی کالونیل ازم کے حوالے سے ہمیشہ خاموش رہے ناصر عباس نئیر پہ اک تنقیدی کالم پر ان کے شاگردانِ عزیز دفاعی انداز میں ادیب کی سیاست سے دستبرداری کی وکالت ایسے کررہے تھے گویا ہم ناصر عباس نئیر سے یہ مطالبہ کررہے ہوں کہ وہ ہمارےترجمان بنے جبکہ سوال بہت ہی سادہ تھا کہ پوسٹ کالونیل ڈسکورس میں وہ پاکستان کی کالونیل اسٹیٹس کو کیسے دیکھتے ہیں ؟، مکالمہ کے بڑے بڑے دعویداروں نے بلوچستان کے عنوان پہ مکالمہ کرکے اپنی اپنی ویب سائٹس سے پورے کے پورے مکالمے غائب کردئیے ۔ اب جہاں مکالمہ کرنے پہ یقین رکھنے والے مکالمہ غائب کرنے پہ یقین رکھیں وہاں لبرل ، ترقی پسندی جیسی اصطلاحات کیا معنی رکھتی ہے ۔ یہاں پہ جتنے بڑے بڑے نام دانش کے حوالے سے معتبر ہیں وہ اتنے ہی بڑے منشی ہیں جیسا کہ عرض نویس کی تحریر ، اگرچہ وہ دیکھنے اور لفاظی میں یکتا ہو لیکن اپنے آخری تجزیہ میں وہ عرض نویس ہی ہوتے ہیں، انکی اپنی سوچ و فکر و آذادی کا وجود کچھ نہیں ، بس لکھ سکتے ہیں، کاغذ کو سیاہ کرسکتے ہیں ، الغرض کالونیل ریاست کے دانشور جن کا تعلق چاہے دایاں بازو سے ہو یا بایاں بازو سے بقول ہروفیسر عزیز الدین ان میں فرق کرنا مشکل ہے ،وہ بلوچ قومی جہد کو کل چند سرداروں یا قبیلوں کی جنگ کہتے تھے اور آج کی جنگ کو چند لونڈوں کی جنگ کہتے ہیں نہ وہ کل بدلے تھے نہ آج اور نہ ان سے بدلنے کی کوئ امید باقی ہے ۔استثنی اپنی جگہ لیکن جب راشد رحمان سے پوچھا کہ پنجاب سے کوئی سارتر کیوں پیدا نہیں ہوا کہ فرانسسی ہوکر بھی الجزائر کے دفاع میں فرانس کیخلاف خلاف کھڑا رہا تو انہوں نے کہا ہم سے ایسے امید رکھنا بے کار ہے کیونکہ وہاں جنرل ڈیگال تھا یہاں جنرل مشرف ، گرچہ دلیل اتنی بھاری نہیں لیکن بات امید نہ رکھنے والی درست ہے۔
(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں