یہ دھرنا نہیں انقلاب ہے ۔ زبیر بلوچ

308

یہ دھرنا  نہیں انقلاب ہے

تحریر: زبیر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

کفن پوش جہد کاروں اور بچوں کی کامیاب ریلی اور احتجاجی مظاہرے کے بعد خواتین ریلی نے بلوچستان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کو ایک نئے موڑ میں داخل  کردیا ہے ۔ آج اگر یہ تمام مناظر دیکھنے کے لیے ایمانویل کازیکوچ ہوتے تو یقینا نیلی نوٹ  بک کا موضوع انقلابی بلوچستان ہوتا۔ گورکی ماں کو کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکال کر چوراہاوں اور سڑکوں کی کہانی بناتے۔ جمی کارٹر کا  ہارنٹس نیسٹ امریکی کسانوں کی نہیں بلوچ ماہی گیروں دہقانوں اور پوریاگروں کے قضیے بیان کرتے۔ انقلابی ادوار ، اپنی کہانیاں اور اپنے بیانیے خود تشکیل دیتے ہیں اور یہ سبھی کہانیاں خوشحالی ترقی اور استحصال سے پاک انسانی سماج کا احاطہ کرتے ہیں۔ استحصال اور محکومی کے  خلاف جدوجہد  مزاحمت کی منزل تک پہنچنے کے لیے مختلف شکلوں اور پیراؤں میں سفر کرکے اپنی آخری منزل تک پہنچے گی ۔

گوناگوں مسائل پریشانیوں تذلیل اور بربریت کی چکی میں پس کر تنگ و بیزار بلوچ عوام اور اس تناظر میں گوادر کے بوڑھے سر پر کفن باندھ کر، بچے اپنے تابناک مستقبل کو پاؤں تلے روند کر عورتیں اپنی شال کے پلو میں اپنا سب کچھ باندھ کر اپنے جائز انسانی حقوق معاشی سماجی مطالبات  اور سکھ کی سانس لینے کے حق میں سراپا احتجاج ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ ان شیر خوار بچوں کو ان عورتوں اور بزرگ بوڑھوں کو  شہری حقوق معاشی خوشحالی سماجی ترقی اظہار آزادی اور آزادی سے جینے کا حق جبر ومحرومی استعماریت اور غلامی سے نجات  ثقافتی اور تہذیبی حقوق منتشر اور بحرانی کیفیات کا شعور کس نے دیا ہ۔ یقینا یہ سب انقلابی حالات کا پیش خیمہ ہے۔ یہ درس یہ شعور کسی لٹریچر اور سرکل کے نہیں ہیں بلکہ بلوچستان کے سلگتے بلکتے حالات کے دیے ہوئے درس اور شعور ہیں جس نے  ہر شوان و شپانک مید و ماہی گیر دہقان و بزگر   درتہ پچ کے شعور پر کاری ضرب لگاکر اس کی روح کو گھائل کردیا ہے ۔

گوادر دھرنا ایک دھرنا نہیں ہے یہ انقلاب ہے ۔ ایک ترقی پسند انسان دوست انقلاب جو سماج کو بحران ، گھٹن،  باسی ماحول  سے نکال کر ایک حقیقی خوشحال آسودہ انسانی سماج کی طرف لے جائے گا ۔ لیکن اس انقلاب کو استحکام اور طاقت دینے کے لیے اس کو گوادر کے موسیٰ موڑ، تربت کے فدا شہید چوک یا خضدار کے فاروق اعظم چوک اور چاکر اعظم پنجگور سے نکال کر کوہ سلیمان اور تونسہ کے کلمہ چوک تک پہنچا  کر ہر بلوچ پاڑے اور محلے میں وسعت دے کر بھر پور عوامی مزاحمت کی شکل میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ تب جا کر اس مزاحمت کے خواب کی حقیقی تعبیر اس زخم خوردہ دھرتی کے سینے پہ چاک ہو گی۔ لمحہ موجود میں سلگتے شعلوں پر شبنم کے قطروں سے محبت کے رنگ چڑھتے محسوس ہو رہے ہیں۔ اس عظیم تر کاروان کی منزل اتحاد جدوجہد اور یکجہتی کے قابل عمل نعرے میں پنہاں ہے۔ اور بلوچستان کے صحراوں، پہاڑوں، جھرنوں، زیر زمین لعل و جواہر اور چاک سینوں سے یہی صدا بلند ہو رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں