چائے ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے – منظور بلوچ

420

چائے ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اتنی بڑی تعداد میں اموات کا تصور بھلا کون کر سکتا تھا؟ یہ کیا ہوا، کیسے ہوا، کب ہوا، کہ میری بستی میں  ایک ایسی وبا آ گئیہے کہ لوگ مر رہے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر، اور مرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، وہ بمشکل اپنی زندگی کی بیس بہاریں ہیمکمل کر پاتے ہیں کہ پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسی جگہ چلے جاتے ہیں کہ جہاں سے لوٹ کر واپس کبھی نہیں آتے، لوگ مرتے جارہے ہیں، ان میں کچھ طبعی موتیں بھی ہیں، لیکن ناقص غذا اور ناقص علاج کو نظر انداز بھی تو نہیں کیا جاسکتا۔ ہر گلی، محلے نےکونٹ کے تلخ اور زہر بھرے نظارے ضرور دیکھ رکھے ہیں، اب تو ایسے لگتا ہے، جیسے جس دن کسی کی تعزیت پر نہ جانا ہو، تو ایکخوف سا دل میں اٹھنے لگتا ہے، دل ڈوبنے لگتا ہے کہ نہ جانے یہ چند سکوت کے لمحات کے بعد کونسی قیامت آنے والی ہے؟ بازاروںمیں، قصبوں میں، کلیانوں میں، ویرانوں میں، پانیوں میں، رہگزاروں پر، دفاتر میں، محلے میں، ہسپتالوں میں لوگ مرتے چلے  جارہےہیں، ایسے لگتا ہے کہ شاید ان مرنے والے نوجوانوں کو بڑی جلدی تھی، جیسے کچھ ایک آدھے دن میں وہ آپ کے سامنے مر رہا ہوتاہے، آپ چیخ رہے ہوتے ہیں، موت آپ کے سامنے آپ کے پیارے کولے جارہی ہے اور آپ ہیں کہ ناگہانی طور پر چیخنا بھی بھول جاتےہیں، جیسے چیخنا کوئی جبلت نہ ہو، ایک فطری تقاضہ نہ ہو، اور آپ چیخنا بھول جاتے ہو، اور آپ اتنے بد حواس ہوتے ہو کہ آپ ذہنپر بہت تیزی سے سیکنڈوں میں، لمحات یاد کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ جیسے آپ کوئی ضروری کام بھول گئے ہوں، اس چیز کو آپ کویاد کرنے کی کوشش میں ہیں جو بڑی قیمتی ہے، اگر یہ قیمتی شے آپ کو نہیں ملی تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ خود مر جائیں گے، وہقیمتی شے، وہ اثاثہ، وہ آب حیات کچھ اور نہیں ایک چیخ ہوتی ہے، اس لمحے یہ چیخ جسے آپ لوگ کوئی پسند نہیں کرتا، لیکن یہیچیخ آپ کے حلق میں ہڈی کی طرح پھنس جائے، اور اس ہڈی کی اتنی بڑی تکلیف ہو کہ آپ کی آنکھیں دکھنے لگیں، تکلیف کے باعثآپ کے آنسو رک جائیں، ایسی شدید قسم کی تکلیف ایک چیخ کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے، جب آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا چاہنے والاآپ کا پیارا، یاربیلی، لنگوٹیا۔۔۔۔، چل ابے لنگور، جھوٹا، فریبی اور ہاں کمینہ۔۔۔۔۔سب سے بڑا کمینہ۔۔۔ کہلانے والے کتنا قیمتی ہے۔ آپکو اس قیمت کا اندازہ کب ہو رہا ہے؟ آدمی کیا ہے؟ زندگی کیا ہے؟ یہ گورکھ دھندہ کیا ہے؟ آپ پہلے کیوں جان نہیں پاتے کہ مجھےگالیاں دینے والا، مجھ سے ناراض ہونے والا، مجھ سے گلے شکوے کرنے والا، لطیفے سنانے والا، مسکرانے والا، اتنی قیمتی ثابت ہوگااور وہ ایک لمحہ، لمحہ نہیں ہوتا۔

عام طور پر ایسے لمحات تو کیا گھنٹے گزر جاتے ہیں، سال گزر جاتے ہیں، اندازہ نہیں ہوتا۔لیکن وہی ایک لمحہ کتنا اذیت ناک اور کربناک بھی ہو سکتا ہے آپ چاہیں بھی تو اس وقت کو چھوٹے نہیں کرسکتے۔ اس کو گٹھا بڑھا نہیں سکتے۔ وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے،جیسے کوئی بہت بڑا اژدھا جب وہ ہلکے سے ہلتے ہوئے اپنی لمبی جسم کی نمائش کرنے لگتا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کھلی آنکھوں کےساتھ آپ کا پیارا جا رہا ہے، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے وہ اپنی آنکھیں موند رہا ہے، وہ بھول نہیں سکتا، اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کیکہانی بھی بس ایک لمحہ ہوتی ہے، اسی ایک لمحہ میں اگر کوئی دانا و بینا ہو یا اس وقت کوئی اپنے ہوش و حواس میں ہو تو وہ جانےوالے،اس دنیا کو چھوڑنے والے کی آنکھوں کی ان کہی کہانی کو پڑھ سکتا ہے۔ اُف اس کہانی میں کیا کچھ نہیں ہوگا۔

اس زمین پر لاکھوں سال سے آباد انسانوں کی عظیم ترین بے بسی، جسکے سامنے اور تمام بے بسی ہیچ ہے، وہ کہانی بیان ہو رہیہو، جھپکتی آنکھوں کے ساتھ، شام کو افق پر اچانک شام پھیل جائے اور آپ کو محسوس نہ ہو کہ کب دن ڈھلا، کب شام ہوئی، دن اورشام کا ملن، اتنا چھوٹا، اتنا سا، بالکل ایک مٹھی کو بند کرنے یا کھولنے جیسا لمحہ، دونوں کا ملاپ ہو جاتا ہے، اندھیرا اچانک اپنےسارے پر کھول کر پھیلا دیتا ہے اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا، آپ لاکھ کوشش کریں کہ ڈوبتے وقت کے سورج پر ٹکٹکی لگاکر دیکھیں،پورے ہوش و حواس کو یکجا کریں، لیکن پھر بھی آپ کو پتہ نہیں چلے گا، شام ہو جائے گی، دن ڈھلنے میں شام ہونے میں جتنا لمحہہوتا ہے، اتنا ہی لمحہ اس وقت جانے والی کی ہوتی ہے، جو ہمیشہ کیلئے آپ کی مجلس، آپ کی بزم، آپ کی آدھ خالی چائے کپ کوچھوڑکر، جس سے اب بھی ہلکا ہلکا دھواں اٹھ رہا ہے، اس کپ پر اس کی انگلیوں کے نشانات ابھی باقی ہیں، آپ کا وہ تھڑا، جواسٹرگلنگ یعنی کوشش کرنے کے دن، عملی زندگی سے دوچار ہونے کے دن، وہ موج مستیاں، شوخیاں، وہ شادی، بیاہ کی رسومات کیبے باکی، سب کو چھوڑ کر جا رہا ہے، اور اس کی آنکھوں میں جو ہمیشہ کیلئے بند ہو رہی ہیں۔

ایک کہانی ہوتی ہے بڑی مختصر سی کہانی، جسے آج تک کوئی نہیں پڑھ سکا، اور جانے والے کی کھلی آنکھیں ایسے معلوم ہوتیہیں، جیسے وہ سوال کر رہا ہے، حیران ہو رہا ہے، اسے یقین نہیں آ رہا کہ اس وقت اس نے جو اپنی آخری کہانی بیان کی ہے، وہسارے دانا لوگ، پڑھے لکھے، ڈگریوں والے، زندگی سے امتحان اور سبق لینے والے نہیں پڑھ سکتے۔

ایک کہانی جو کبھی پڑھی ہی نہیں گئی، وہ جانے والے کی آنکھوں کی آخری کہانی ہوتی ہے، اس کے بعد آنکھیں ڈھلک جاتی ہیں،گوشت پوست سے بنا جسم اکھڑ جاتا ہے، اس کی وزن بڑھ جاتی ہے، اب وہ صرف ایک میت ہے، اس کا کوئی نام نہیں، لوگ اس کیلئےغریب، بے چارہ کا لفظ استعمال کریں گے، جب کبھی بھی اسے یاد کیا جائے گا تو اس نے نام سے پہلے غریب، بے بس، لاچار، بےچارے کے سابقے لگائے جائیں گے۔

ان آنکھوں کی عظیم تر، عظیم المیہ، عظیم کہانی بیان ہوکر بھی بیان نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے پیارے، اس کے چاہنے والے، اس کےاردگرد جمع لوگ اسے بچا نہیں سکتے، اور وہ اپنی چیخ بھول جاتے ہیں، چیخنے کیلئے بھی تو حافظہ چاہیئے، لیکن چیخ کی بھی تواپنی کہانی ہے،کیونکہ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کی اپنی کہانی کیا ہے، کیا وہ شعوری طور کی چیخ ہے، کیا گھبراہٹ کی چیخ ہے، یایہ چیخ لاشعوری تو نہیں، بس چیخنا ہے، کیوں چیخنا ہے؟ اس وقت معلوم نہیں ہوتا،اس لمحے میں ہم معلوم کی دنیا میں ہی نہیں ہوتے،زمان و مکان کا تصور مٹ چکا ہوتا ہے، نہ کوئی ماضی ہوتا ہے نہ کوئی حال اور مستقبل تو سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے، یہی وہ لمحہہے جب زندگی میں ایسے ہی لمحات کے وقت مستقبل ایک سراب ہے، جو آپ کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے، ایک ایسے ہی لمحہ کے وقت آپ کومعلوم ہو جاتا ہے کہ مستقبل تو ہوتا ہی نہیں، یہ مستقبل سارے کا سارا جھوٹ ہے جو لوگوں نے پھیلایا ہے، اس ایک لمحے انسانواقعی انسان ہوتا ہے، اس ایک لمحہ کی دانائی کو اگر پالے تو پھر کبھی بھی انسانیت مر نہیں سکتی، کیونکہ وہی کہانی آپ کےدشمن کی آنکھوں میں بھی ہوتی ہے، جو آپ نے کبھی ایک عظیم اور چٹکی بھرے لمحہ میں دیکھا ہوتا ہے، جب آپ کا سارا ذہن خالیہوچکا تھا، سلیٹ ہوچکا تھا، اس پر کوئی لکھائی نہیں تھی، اس میں کوئی تعصب نہیں تھا، اس میں کسی فرقے کا لفظ لکھا ہوا نہیںتھا، اس میں مذہب، دولت، گریڈ، اسٹیٹس، مال و متاع، غریبی حتیٰ کہ کوئی نظریہ بھی نہیں ہوتا ہے، خالی، صرف خالی۔۔۔۔

یہ انسان کی، اس انسان کی، جسکا پیارا اس کے سامنے دم توڑ رہاہے، ہاں اسی انسان کی اصل انسانیت کا سب سے سچا واقعہ،سب سے بڑی سچائی، صداقت  نمودار ہوتی ہے، اگر اس سچائی کو وہ اپنے دشمن کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں کی آخری کہانی میںدیکھ سکے تو۔۔۔ وہ لمحہ کتنا تلخ ہوتا ہوگا، کتنا زہر اس میں بھرا ہوگا، اس میں روح چھلنی چھلنی ہو جائے گی، کرب اور اذیت کے بےرحم نشانات روح پر کوڑوں کی طرح برس رہے ہونگے، وہی لمحہ انسان کو اس کی حقیقت بتاتا ہے، لیکن یہ کرب، یہ درد، یہ تکلیف، یہروح کے زخم سستے میں نہیں ملتے، ان کی قیمت بھی بہت بڑی ہوتی ہے، جتنی بڑی قیمت آپ چاہتے ہیں، اس کے بدلے اتنی ہی بڑیاذیت آپ کو خریدنی ہوگی، اس جہاں میں، زمین پر جہاں ہم رہتے ہیں، بستے ہیں، بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپے گزارتے ہیں، یہاں ہرچیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، انسان کو مفت میں کچھ نہیں ملتا، فقیر کو بھی محنت کرنا پڑتی ہے، پیشہ ور فقیر ایک اداکار کی طرحبہروپ بھرتے ہیں، ادا کار اربوں پتی ہوتے ہیں، فقیر چند ٹکوں پر گزارہ کرتا ہے، اسے بھی محنت کرنا پڑتی ہے، وہ چور بھی تو محنتیہی ہوگا جو چوری کی منصوبہ بندی کرے، اس پر عمل کرسکے، بھلا وہشاکرہی کیوں نہ ہو، وہ بھی دماغ لڑاتا ہے، دماغ لڑانےکی محنتانہ بھی تب اس کو ملتی ہے،

اس لئے انسان  جو کچھ  بھی سیکھتا ہے، اس کی ایک قیمت ہوتی ہے، سکھانے کی ایک قیمت دکانداروں کی ہوتی ہے، جو سکولبناتے ہیں، اکیڈمیاں بناتے ہیں، یونیورسٹیاں بناتے ہیں، سرکل لگاتے ہیں، نظریہ بناتے ہیں، نظریہ کے نام پر گروہ بناتے ہیں، وہ سباپنے اصل میں اور بقول مارکسی ملاؤں کے، کہآخری تجزیے میںمیں وہ دکان دار ہی ثابت ہوتے ہیں، لیکن سیکھنے کا یہ عملانسان، زندگی، وقت اور نیچر سے سیکھتا ہے۔

چونکہ فطرت بے نیاز ہوتی ہے، لیکن بے نیاز ہوتے ہوئے بھی وہ آپ سے قیمت وصول کرتی ہے، لیکن اس کی قیمت اور دکان دار کیقیمت میں فرق کی نوعیت بڑی واضح ہوتی ہے، فطرت دوکان دار ہو ہی نہیں سکتی، لیکن یہ سب کچھ آدمی اسی وقت سیکھتا ہے، جبایک لمحہ زندگی میں ایسا بھی آتا ہے، جب اس کا یار بھیلی رخصت ہو رہا ہوتاہے (رخصت اف اوار اُن) وہی لمحہ ہوتا ہے، جب آپچیخنا چائیں بھی تو چیخ نہیں سکتے، آپ چیخ کو بھی  بھول جاتے ہیں، پھر بھولنے کو یاد کرنے کے عمل میں اور بھولنے چلے جاتےہیں، ذہن دشت بن جاتا ہے، خاک اڑاتی صحرا بن جاتا ہے، جہاں سارے نشان مٹ جاتے ہیں، حروف کے نشان، انسان کے رنگ و نسلکے نشان، رنگوں کے نشان، موسموں کے نشان، چاہتوں کے نشان، یارانوں کے نشان، پہلی پہلی معصوم محبت کے نشان، آپ سببھول جاتے ہیں،  جتنا یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی بھول جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کے ہاتھ پاؤں بھی پھول جاتے ہیں،ذہن میں حافظہ رخصت ہو جاتا ہے، آپ انسان بنتے ہیں، صرف انسان، زمان و مکان سے ماورا، یہ تیرا یہ میرا سے ماورا، دنیا کی ہرایک شے سے ماورا، حتیٰ کہ اپنے وجود سے ماورا، اس ایک لمحے سارے نظریے فنا ہو جاتے ہیں، لیکن ہمیشہ کیلئے فنا نہیں ہوتے،کیونکہ اگر ہمیشہ کیلئے فنا ہوتے وقت تو کوئی دکان دار نہیں ہوتا، کوئی نظریہ فروش نہیں ہوتا، کوئی قوم کا سوداگر نہ ہوتا، کوئیبھائی کے لہو سے دوکانداری نہیں کرتا، کوئی پانچ سو روپے لیکر اپنے بھائی کا گلہ نہیں کاٹتا۔ کوئی مخبر نہیں ہوتا، کوئی برادر کشنہیں ہوتا، کوئی وحشی، قاتل نہیں ہوتا، کسی کو لیڈر ہونے، دانش ور ہونے کا زعم نہیں ہوتا، چھوٹے بڑے کی تعریف نہیں ہوتی، دستارکی بات نہیں ہوتی، پیسوں کا غرور نہ ہوتا، گریڈوں کی کھلے عام نمائش نہ ہوتی، فیس بک پر خود نمائی نہ ہوتی، کوئی طاقت کابھوکا نہیں ہوتا، کوئی طاقت کا نشئی نہیں ہوتا، کوئی طاقت کیلئے بستیوں کو آگ نہیں لگاتا، کوئی بچوں، بڑوں، نوجوانوں، عورتوں کوموت کے گھاٹ نہیں  اتارتا، لیکن ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے، وہ کتنا کربناک اور اذیت ناک ہوتا ہے، اس کا سوچ کر آدمی کے نرخرہ میںجیسے چاقو پیوست ہونے لگتے ہیں، چیخ تو کیا آنسو بھی رک جاتے ہیں، دم گھٹ جاتے ہیں، ایک لمحہ، ایک چیخ، ایک زمان و مکان سےماورا، ایک آخری انہونی کہانی ہوتی ہے جو بند ہوتی آنکھیں بیان کر رہی ہوتی ہیں، ایسی آنکھیں دنیا کا سب سے بڑا داستان گوہوتی ہیں، لیکن آدمی بھول جاتا ہے، فراموش کرنے لگتا ہے، کیونکہ اس ایک لمحہ کی قیمت زندگی کو ہر لمحہ سولی پر لٹکائے رکھتیہے، احساس نے ہم کو سولی پہ چڑھا رکھا ہے، شاعر کہتا ہے، اور وہی لمحہ صرف شاعرانہ ہوسکتا ہے، کیونکہ جس طرح شاعری کوبیان نہیں کیا جاسکتا، پڑھا نہیں جاسکتا، گایا نہیں جاسکتا، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے، یہ آخری کہانی، ایک لمحہ کی کہانیبھی بیان نہیں ہوسکتی ہے، اس کیلئے ابھی الفاظ ایجاد نہیں ہوئے ہیں، لوگ کتنے احمق ہیں، اتنی ترقی کے باوجود سپر کمپیوٹر سےلیکر مریخ تک پہنچنے کی کاوشوں کی ترقی کے باوجود وہ اپنی ڈکشنری میں ایسے الفاظ کیوں ایجاد نہیں کر سکے ہیں، یہیں تو وہمار کھا جاتے ہیں،ان میں ابھی تک اتنی ذہانت و فطانت پیدا نہیں ہوسکی، اتنا بڑا کوئی سائنس دان ابتک وجود میں نہیں آسکا،دوسری جانب ایک ایسا ہی لمحہ آنکھوں کی ایک ایسی ہی کہانی ہوتی ہے، جس کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا، ویرانوں میں یہ لمحہ،یہ کہانی بن دیکھے، لوگوں کی پہنچ سے دور بیان ہوتی ہے، اور وہ کھلی آنکھیں انسان پر حیرت کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں، وہانسانوں کی بے حسی کی سب سے بڑی داستان ہوتی ہیں، لیکن اس کے آس پاس اس کے یار بھیلی، چاہنے والے لوگ نہیں ہوتے، یہیوہ آنکھیں جو تاریک راہوں میں اپنی ان کہی کہانی، ایک عظیم لمحہ کو بھی صرف فطرت کے سامنے بیان کرتی ہیں، لیکن انسان پھربھی آدمی سے بھی کم تر بوتا بن جاتا ہے، طاقت کی پوجا کرتا ہے، دولت کا بھوکا ہوتا ہے، انسانی خون کا نشئی ہوتا ہے، وہ گھمنڈیہوتا ہے، اپنے تعصبات کے نام پر جن کو وہ نظریے کا نام دیتا ہے، ہزاروں معصوموں، بے گناہوں کی جانیں لیتا ہے۔

تاریک راہوں کی یہ آنکھیں ایک عظیم خواب کی خاطر، انسانوں، محکوموں کی نجات کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرتی ہیں، یہاںنظریہ نہیں ہوتا،انسان ہوتا ہے، اس کی مٹی ہوتی ہے، اس کے لوگ ہوتے ہیں، وہ محکومی سے نفرت کرتا ہے، وہ اپنے آباء اجداد کیمٹی کو مقصد سمجھتا ہے، لیکن وہ نظریہ فروش نہیں ہوتا ہے، لیکن اپنی بستی میں ایسے لمحات قیمتی ہونے کے باوجود کسی کیمرہکے فریم نہیں سما سکتے، ان کی کوئی تصویر نہیں بن سکتی، جیسے صباء دشتیاری کی گولی لگے بند آنکھوں اور پیشانی کو اسکی بچیوں کی عقیدت کا بوسہ کبھی کوئی تصویر نہیں بن سکا۔

لیکن میری بستی تو کبھی ایسی نہ تھی، ایک آگ آج سے بیس سال قبل طاقت کے بھوکوں نے یہاں پہ لگائی تھی، لیکن موت کی وباءتو خاص کر 2010 کے بعد اتنی تیزی سے، اتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ کوئی گھر، محلہ،علاقہ ایسا نہیں ہے جن کے پیارے اس وباءکے ہاتھوں مارے نہ گئے ہوں، کون جانتا ہے یہ وباء کب تک اپنی بستی میں دندناتی رہے گی، اپنا یار بھیلی اپنی تمام  تر کمزوریوں کےباوجود اتنا قیمتی کیوں ہوتا جا رہا ہے؟ لیکن کس کے پاس وقت ہے کہ وہ ان باتوں پر سوچے، ہر روز ایک لاش کی دہائی سوشل میڈیاپر وائرل ہوتی ہے، کتنی جلدی ہے نوجوان لوگوں کو مرنے کی، ارے بھائی، دیکھو ابھی شادی بیاہ کے موسم آنے ہیں، یہ خزاں کا وقتجانے والا ہے، پھر بہاریں آئیں گی، پھر گلستانوں میں پھول کھلیں گے، ہم بھی چلتن میں گواڑخ ڈھونڈنے جائیں گے، ہم بھی بولان کیآغوش میں رہ کر ایک پورے جیون کی تھکان اتاریں گے، ابھی نہیں اتنی جلدی نہیں، ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ ابھی یہ دل بھرا نہیں،ابھی تو جی بھر کے باتیں بھی نہیں ہوئیں، ہم نے ٹھیک سے ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو تک نہیں کی، چائے ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئیہے۔

SHARE
Previous articleوی بی ایم پی کے احتجاج کو 4499 دن مکمل
Next articleکوہلو میں قابض فورسز کے چھاونی پہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔ یو بی اے
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔