بلوچستان میں کوئلے کی کان سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف وزری پر تشویش ہے – ایچ آر سی پی

233

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیم کے تجربہ کار رکن حسین نقی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایچ آر سی پی کے مشن سے حاصل ہونے والے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ کوئلے کے کان کنوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خطرہ ہے۔

انہوں نے پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال کان کنی کے حادثات میں کم از کم 176 کان کن جاں بحق اور 180 زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا بلوچستان میں کان کنوں کو غیر ریاستی عناصر کے ٹارگٹ حملوں کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔

ٹیم کی طرف سے مائن کا دورہ کیا گیا جس میں حاصل ہونے والے نمونے کی بنیاد پر ظاہر ہوا کہ سائٹ پر صحت کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔

حسین نقوی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کوئلے کی کان کنی ایک خطرناک پیشہ سمجھا جاتا ہے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کان کے مالکان اور ٹھیکیداروں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کان کے قریب ایمبولینس سروس اور ایک طبی عملہ موجود ہو۔

اس موقع پر انہوں نے اندرونی حفاظتی معائنہ باقاعدگی سےکرنے پر بھی زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ بیرونی حفاظتی معائنہ کے حوالے سے بات کی جائے تو بلوچستان میں 6 ہزار سے زائد بارودی سرنگوں میں صحت اور حفاظت کی نگرانی کے لیے صرف 27 مائن انسپکٹرز دستیاب ہیں، جو تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ مشن کے وسیع نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئلے کی کان کنوں کی اکثریت ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای ای بی آئی) یا دیگر سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے، جس کی وجہ سے جب وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں توانہیں بے آسرا چھوڑ دیا جاتا ہے‘۔

علاوہ ازیں موت اور زخمی ہونے کا معاوضہ دوسرے صوبوں میں 5 لاکھ جبکہ بلوچستان میں اس سے کم یعنی 3 لاکھ ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق، لیبر یونین کے بیشتر نمائندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کوئلے کی کانوں کو چلانے کے ٹھیکیدار کے نظام سے بہت ناخوش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹھیکیدار اپنے مزدوروں کی تحفظ کو یقینی بنانے میں بہت کم کام کر رہے ہیں وہ لاگت میں کمی کے اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔

یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ بہت سے معاملات میں ٹھیکیدار خود مزدور یونینوں کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہیں جو کہ مفادات سے متضاد ثابت ہوتا ہے۔

ایچ آر سی پی نے یہ بھی سفارش کی کہ حکومت کوئلے کی کان کنی کے شعبے کی حیثیت کو ایک صنعت کے طور پر ترقی دے۔

انہوں نے کہا کہ کان کے مالکان اور ٹھیکیداروں دونوں کو 1923 کے مائنز ایکٹ اور اس کے بعد ہونے والی ترامیم کی دفعات کے مطابق اپنی سائٹس چلانے کی ہدایت کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرے۔

کمیشن نے حکومت پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد کانوں میں حفاظت اور صحت سے متعلق آئی ایل یو کنونشن 176 کی توثیق کرتے اس پر عمل درآمد کرے۔

علاوہ ازیں صوبے بھر میں کوئلے کی کانوں کے گرد صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرے۔

حسین نقی کا کہنا تھا کہ مشن کی رپورٹ جلد از جلد جاری کی جائے گی۔