کتاب: سامراج کی موت – ریویو: عرفان نواز

385

کتاب۔ سامراج کی موت

مصنف: فراننز فینن
ریویور: عرفان نواز

دی بلوچستان پوسٹ

فینن کی یہ کتاب مکمل طور پر چار بابوں پر مشتمل ہے ہر ایک باب میں سامراج کے الجزائر میں محکوم و مظلوم عوام کی ایک نہ ختم ہونے والی ظلم وزیادتیوں کی عجیب داستانیں لکھی ہوئی ہیں۔

فراننز فینن کی یہ کتاب اُن مظلوم عوام اور غریب ممالک کےلئے لکھی گئی ہے جس میں مغرب ممالک کی طرف سے مظالم چھائے گئے تھے۔
یہ کتاب 1959ء میں فینن نے لکھ کر شائع کی تھی اور بعد میں اس کتاب کو خالد محمود نے2012ءمیں اردو زبان میں ترجمہ کیا تھا، فینن کی جانب سے یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب فرانز فینن الجزائر کے عوام کی جنگ آزادی کی ہر ایک کام میں عملی طور پر شریک تھا۔
یہ کتاب الجزائر کی حالات کے پیش نظر لکھی گئی ہے جو اس وقت فرانسیسی قبضے میں تھا ۔اس کے برعکس آج ہمیں امریکی استعمارcolonize کا سامنا ہے ۔لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو فرانس اور امریکہ کے قبضے میں کوئی فرق نہیں تھا دونوں بہت سے کاموں میں ایک جیسے مماثلت similarities رکھتے تھے ۔

ایڈوکیٹ صاحب نے پاکستان کی حالت زار پر لکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بھی اِس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ایک طرف تو امریکہ جیسے بہادر ملک کی دہشتگردی اور دوسری طرف اس کے اپنےہمسائیہ اتحادی ممالک بھی انکے ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مکمل طور پر کھوکھلا پن کی شکار ہے اور دوسری جانب حکمرانون کی بدعنوانیوں نے انکی مزید سالمیت اور اجتماعی خودی کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔

جب فرانز فینن کو ایک بیماری لاحق ہوگئی تھی تو ڈاکٹروں کے مطابق وہ بہ مشکل چھ ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے تو یہ سن کر آپکی سوچ میں آیا کہ میں ایک ایسے کام کرسکوں تاکہ مجھے تاریخ میں یاد رکھا جائے تو اُس نے سوچا کہ آزادی کی خاطر جنگ سے زیادہ اور کوئی کام نہیں اگر میں لڑوں تو یہ میرے لئے باعث فخر ہوگا ۔تو انہوں نے ایک پیغام الجزائر کے جہادیوں کے لئے بھیجا کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ اس استعمار colonialism کے خلاف لڑنے کو تیار ہوں اور جہادیوں نے اسکی اپیل منظور کرلی اور وہ جہاد میں شامل ہوگیا۔

فینن فرانس کے استعماری ظلم کے خلاف آگے ایک واقع بیان کرتا ہے کہ کسی فرانسیسی فوج کے ایک سپاہی نے الجزائر کے کسی بچے اور اسکی ماں کو گرفتار کرلیا اور اسکی ماں کے ساتھ بدفعلی کرکے اسی کمیپ میں مار دیا اور اس بچے کی ساتھ بھی ظلم کیا جارہا تھا اور حتٰی کہ اُسے سونے بھی نہیں دیا جارہا تھا۔تو کسی صحافی نے اُس بچے سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ اتنا ظلم ہورہا ہے اور حالانکہ آپکے ماں کو ان ظالموں نے بے دردی سے شہید کیا تھا ابھی آپ کیا چاہتے ہو؟ کیا آپ مزید انصاف کے طلبگار ہیں؟ کیا آپ پر امید ہیں کہ آپ کو انصاف ملے گا ؟ تو اُس بچے نے بلا خوف و جھجھک صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں کسی سے انصاف نہیں مانگوں گا اور نہ ہی میں ان ظالموں سے انصاف کا طلبگار ہوں بلکہ یہ میرا ایک خواب ہے کہ اگر میرے ہاتھ میں کوئی فرانسیسی فوجی آئے اور میں اسکی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دوں۔

آگے مصنف الجزائر میں فرانس کی استعمار colonization پر لکھتا ہے کہ جب فرانس چاہ رہا تھا کہ میں الجزائر میں کیسے اپنی رعب جماؤں اور اُن پر اپنی حکمرانی قائم کرسکوں۔ تو اُس نے اپنے آپ کو منانے کے لئے ہر حربے استعمال کئے لیکن وہ ناکام رہا تو انہوں نے الجزائر پر مکمل طور پر اپنی قبضہ جمالیا۔

الجزائر میں عورت کو بڑا رتبہ حاصل تھا۔ وہاں کےعورت کو جتنا احترام دیاجاتا تھا جتنا کہ اسلام میں انکی کہی گئی ہے۔ تو فرانسیسی استعماروں نے سوچا کہ ہمارے پاس ایک واحد ذریعہ یہی بچ گیا ہے کہ ہم ان کے عورتوں کی عزتیں پامال کریں۔ تو انہوں نے اپنے مشن کے آگے لے جانے کے لیے اپنا کام شروع کیا۔ تو وہاں کے عورتوں نے دیکھا کہ ہمارے باپ اور بھائیوں کے بعد اب ہماری عزتِ نفس ان درندوں کے سامنے محفوظ نہیں تو ہمارے ہاں خاموش رہنے کا جواز ہی نہیں بچ سکتا۔

یاد رہے الجزائر کے انقلابی تحریک کا نام لبریشن فرنٹ تھا جو سامراج کے استعماری کے خلاف بنائی گئی تھی اور وہ ہر طرح کے قربانی کے لئے پیش پیش تھا۔ تو یہی با پردہ عورتوں نے اعلان جنگ کا کال دے دی اور اپنے اُوپر اسطرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ گرنے کے بعد وہ اپنے گھروں سے نکل کر سامراج کے خلاف ہر طرح کی جنگ لڑنے کا اعلان کردیا۔ اسکے بعد یہ سلسلہ تھم نہ سکا سامراج نے اپنے جنگ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کی اور اّن کے اس ظلم کے خلاف گوریلا جہادیوں کے تعداد بھی بڑھنے لگی حالانکہ دوسرے ہمسائیہ اقوام کی طرف سے انکی حمایت بھی کردی گئی اور انکے ساتھ جہاد کا بھی اعلان کردیاگیا ۔تو بالاآخر سامراج تنگ آکر الجزائر کے لوگوں کو بلاوجہ تنگ کرکے اور انہیں سختی سے چیکنگ کرنا شروع کردیا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ کہاں جارہے ہو ؟ آپکے اس بیگ میں کیا ہے ؟ تو اس رویے سے عورتوں نے اپنے اوپر نقاب پھیرنا مناسب سمجھا کہ کیونکہ وہ عورتوں کو اتنا تنگ نہیں کرتا تھا جتنا مردوں کو کرتا ۔ تو عورتوں نے اپنے ایک ہاتھ میں اپنی اسلحہ اور بارود رکھ دیا اور انہوں نے کچھ بارود کواپنی جسم میں باندھا اور کچھ کو اپنی ہاتھ میں رکھ کر اپنی نقاب کے زریعے چُھپاتے تھے اور دوسرے ہاتھ کو کُھلا چھوڈ کر چلے جاتے تھے کیونکہ انکی ایک شرط یہ تھی کہ عورتوں کےلئے کہ وہ اپنے ایک ہاتھ کو لازماًخالی کرلیں ۔

اس طریقے سے یہ سلسلہ جاری رہا اور بعد میں میں انکو پتہ چلا کہ انکے اپنی فوجیوں کی جانب سے میں اسطرح کے طریقے اپنائے جارہے ہیں کہ وہ جہادیوں کو مدد کررہے ہیں تو انہوں نے انکی گھروں کے عورتوں کو دھمکیاں دینا شروع کردی اور انکے خلاف ظلم کے پہاڑ بلند کئے اور ان کی اس رویے پر لبریشن فرنٹ کو مزید وسعت ملی اور کامیاب ہوتی گئی۔ تو انہوں نے اپنے ایجنٹ بنا لئے اور انہیں مختلف علاقوں میں بھیج دی گئی جو وہاں جاکر انکے لوگوں کو انکی گھر کے عورتوں کے خلاف بہت سے باتیں بتائی گئی تاکہ وہ مایوس ہو کر اپنے عورتوں کو واپس اپنے گھر بلالیں ۔

اس حوالے سے مصنف ایک مثال لکھتا ہے کہ انکے ایک ایجنٹ کسی باپ کے پاس گیا اور وہاں کہا کہ آپکی بیٹی اچھی کام نہیں کررہی اور وہ زیادہ وقت غیروں کی دے رہی ہے اور آپکی گھر میں بھی نہیں ہے یہ بات سُن کر والد حیران ہوگئی تو انہوں نے پوچھ گچھ شروع کردی اور پتہ چلا کہ وہ گوریلا مجاہدوں کی مدد کررہی ہے۔ اُس لڑکی کی باپ نے یہ سوچا کہ اپنی اس شہزادی بیٹی کو غیروں کے سامنے مزاحمت میں دیکھ نہیں سکتا تو وہ خود اس میں شامل ہو کر اعلان جنگ کردیا اور یہ بھی کہا کہ مجھے اپنی بیٹی سے زیادہ وطن عزیز ہے تو اگر میں مر بھی جاؤں تو اپنی وطن کے لیے جب یہ مسئلے کو اقوام متحدہ کے فورم میں اٹھائی گئی تو اس فرانسیسی استعمار نواز رہنما نے اپنی خطاب میں کہا کہ ہم کسی بھی پسماندہ علاقے میں قبضے کرنے کے حق میں نہیں ہیں ہم اس لئے وہاں جاتے ہیں کہ ان علاقوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے اپنی کردار ادا کرسکیں اور علاقے یا ملک میں ترقیاتی کاموں کا آغاز کرتے ہیں اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم پسماندہ علاقوں میں قابض ہو کر وہاں کے اقوام کو مہذب بنائیں اور ان میں تہذیب کی روشنی میں پھیلائیں اور وہاں کے اقوام کے اندر احساس کمتری کو دور کرسکیں۔لیکن حقیقت بلکل اسکے برعکس تھی ۔ جس طرح استعمار نے افریقہ پر قبضہ کرکے الجزائر کو ننگا کرنے کے کوشش کی اور وہاں کے عورتوں نے اپنی حفاظت کے لیئے اپنی پردہ اتار دیا اور اپنے انقلابی بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے اور اپنی پردے کی آزادی کی ضمانت دی یہ اقدام انقلاب کے حکمت عملی کے لئے کارگر ثابت ہوئی اور انکی آزادی کے منزل پر پہنچنے کے بعد عورتوں نے پھر اپنا دامن واپس اسی روایاتی پردے سے ڈھانپ لیا۔
فینن اپنے کتاب کے دوسرے باب میں الجزائر کے لوگوں کی آواز کے بارے میں لکھتا ہے کہ انکی آواز کو تقویت پہنچانے کے لئے الجزائر میں ریڈیو کو لایا گیا جو کہ اس کے نام الجزائر کا تھا اور باقی تمام کنٹرول فرانسیسی قبضہ گروپ کے ہاتھوں میں تھا اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ میرے لئے ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوگا لیکن جس طرح وہ چاہتے تھے تو ریڈیو میں بھی اسی طرح کے خبریں دی جاتی تھی۔

الجزائر کے لوگ پسماندگی کے شکار تھے ۔اُن کے لئے یہ ریڈیو ایک نئی چیز تھی بہت سے لوگ ریڈیو کو نہیں جانتے تھے اور بہت کم لوگوں کے پاس ریڈیو موجود تھا اور وہ خبریں سنتے تھے۔ وہ وہاں کے لوگوں میں قدامت پسندی بھی زیادہ تھی اور خاندان کے لوگوں ایک ساتھ بیٹھ کر نشریات نہیں سن سکتے تھے اور جب ریڈیو پر نشریات آتی تو بعض اوقات لڑائی جھگڑے بھی ہوتے تھے سیاسی و سماجی اور معاشی نشریات سن کر بہت سے لوگ ذہنی طور پر دباؤ کی شکار تھے۔

زیادہ تر قدامت پسند لوگوں نے ریڈیو کی نشریات کو ترجیح نہیں دی۔ الجزائر میں گوریلا مجاہدوں کو کمزور کرنے کے لئے ریڈیو کے زریعے ہر حربے استعمال کئے گئے اور بعض اوقات ایسے بے ہودہ خبریں اور اشتہارات نشر کی گئی جو مکمل اس کی ثقافت کی خلاف تھی۔ بعد میں یہ بھی سوچنا شروع کردیا گیا کہ ریڈیو کے زریعے فرانسیسی فوجیوں کی خدمات ، چیک پوسٹوں کی معلومات اور حتٰاکہ فرانس کے قومی ترانے کو بھی پیش کردی گئی تاکہ فرانس کے استعمار کو مزید حمایت حاصل ہو اور فرانسیسی حکومت کے جانب الجزائر کے بڑے بڑے شہروں میں ریڈیو بھی مفت تقسیم کردی گئی تاکہ حامیوں کی تعداد زیادہ ہو جائے بلکہ اس طرح کے بہت سے دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کو ریڈیو کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں تھے تاکہ انکی استعماری کو وسعت مل سکیں اور اپنی قبضہ گیریت کو مظبوط کرسکیں۔

مصنف آگے لکھتا ہے کہ الجزائر کے لوگوں کی بےبسی اور کیا ہوسکتی ہے جو بہت سے لوگوں نے ریڈیو کو گانے سننے کے لئے خرید لیا یوں اسی طرح علاقے میں ریڈیو کی مانگ بڑھتا گیا تو فرانسیسی استعماروں نے مارکیٹوں پر قبضہ کرنا اپنا مشن بنایا اور مشن کو آگے لے جانے کے لیے اسے وہاں تک لے گئے یہ سلسلہ جاری رہا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الجزائر کے لوگوں کو ہوش آگیا اور انہوں نے ہوش کی ناخن لئے اور یہ سوچا کہ یہ تمام کام ہمارے ساتھ ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت ہورہی ہیں کہ ہمارے ہاں پریس میڈیا اور دوسرے طریقوں سے نقصان پہنچانے کہ کوشش کی جارہی ہے تو انہوں نے اپنے آپکو باخبر رکھنے اور آذادی کی تحریک کو وسعت دینے کےلئے راستے ڈھونڈنے شروع کردئیے ۔تو فرانسیسی مکّاروں نے یہ دیکھ وہاں زرعی فارم بنایا اور مقامی لوگوں کو نوکریاں دےدی تاکہ انکو مزید بے خبر کردی جائے۔ وہ لوگ جب کہتے ہیں کہ صاحب کوئی نئی خبرتو انہوں نے انکی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر انہیں جھوٹی خبروں سے آگاہ کرتے تھے ۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ فلاں جگہ میں ڈاکو لوگوں کو لوٹ رہے تھے تو سیکورٹی فورسز کے فائرنگ سے اتنے لوگ مارے گئے ہیں۔

دراصل یہ حقیقت کو چھپانے کی کوشش تھی کہ لوگوں کو معلوم نہ تھی کہ کس طرح کے حالات چل رہے ہیں۔ یعنی اسی طرح کے جھوٹے خبروں سے انکو خاموش کیا جاتا یا وہ جانتے تھے کہ کوئی بندہ کو یہ سب معلوم ہے تو وہ انہیں کھانے میں زہر ملا کر دے دیتے اور اسی طرح جھوٹی خبریں میڈیا پر نشر کرتے تھے اسی طرح کے جھوٹے خبروں نے الجزائر کے لوگوں کو مزید متحد کرنے کی کوشش کی گئی اور ایک وقت آیا کہ مقامی لوگوں نے اپنی تمام خبریں پریس اور دوسری شکل میں دنیا کے سامنےلانا شروع کیا تو فرانسیسی استعماروں کی سچ عیاں ہوگئی کہ وہ اپنی استعمارانہ نظام colonial system کو کس طرح کے حربے سے چلارہے ہیں ۔کیونکہ مقامی میڈیا میں سب کچھ عیاں تھا اور اس میں اسطرح کے خبریں آ رہے تھے کہ فلاں علاقے میں آزادی پسند مجاہدوں اور سیکورٹی فورسز کی درمیان جھڑپ ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ حقیقت تھا اور سامراج جو خبریں اپنی مزدوروں کو کہا کرتے تھے کہ وہ سب جھوٹ تھے۔ اسطرح کے نشریات آزادی پسند مجاہدوں کے لئے کار آمد ثابت ہوتی گئی اور انکی حمایت بھی بڑھتی گئی اور انکی جھوٹی خبروں کو مسخ کردی گئی۔

1955 ءکے شروعات میں اچانک حالات پلٹنا شروع ہوگئے اور یہ خبر آئی کہ مجاہدین نے چھوٹے چھوٹے شہروں کو اپنی قبضے میں لے لیا اور وہاں الجزائر کے جھنڈے بھی آویزان گئے ہیں اور بعض لوگ حقیقت کو جاننے کے لئے اسی علاقے میں فون کال کے زریعے رابطے کرکے پوچھ گچھ کرلیا کرتے تھے۔

1954 میں جب لبریشن فرنٹ اپنی زورمیں تھا تو اس وقت فرانسیسی استعمار منتشر ہوگئے تھے اور انہوں نے ایک نیا طریقہ آزمانا شروع کرلیا کہ لوگوں کو اغواء کرتے اور ماردیتے جب کہ میڈیا میں اّن پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے تھے اور کہتے کہ یہ بندہ جیل سے فرار ہواتھا اور یہ جہادیوں کے ہاتھوں میں قتل ہوئے ہیں اس میں ہماری سیکورٹی فورسز نے کچھ نہیں بگاڈا نہیں ہے۔

دوسری جانب جب الجزائر کے ریڈیو مجاہدین کے ہاتھوں میں آئی اور وہ آزاد ہوئی لوگوں کو سچائی سے واقف کروانا شروع کردیا گیا۔
1954 سے‌ پہلے‌ جب ریڈیو کو الجزائر میں لایا گیا تھا تو اس وقت بہت سے لوگوں‌کو‌ ان تمام چیزوں کے بارے میں‌علم نہیں تھا اور جب 1955ء کو لبریشن فرنٹ کو کامیابی ملتی جارہی تھی تو لوگوں کے دلوں میں ریڈیو کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اور وہ زیادہ سیاسی و سماجی حالات سے واقف ہونے کے لئے ریڈیو کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے تھے اسی طرح گوریلا جہادیوں کو زیادہ مدد کرلیتے کیونکہ پہلے وہ کسی چیز کے بارےمیں واقف نہیں تھے اور سامراج نے اّن کے دماغ کو جھوٹی خبروں سے پُرکیا تھا۔

ریڈیو میں ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا جو پریس میڈیا کی شکل میں لایا گیا یوں ہی پریس کی آغاز ہوئی اور لوگ ہر طرح کے حالات و واقعات سےواقف ہوئے۔ تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں بھی ہمیں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا تو انہوں نے پھر ایک نیا طریقہ ڈھونڈ لیا کہ ابھی بوڑھوں اور نوجوانوں کو اخبار نہیں دی جائیگی اور اِنکی اعلان بھی کردی گئی ۔وہ الجزائر کے ہر ایک آدمی کو نیشنلسٹ کی آنکھ میں دیکھ لیتے اور انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھ لیا کرتے تھے ۔اس طریقے کو دیکھ کر الجزائر کے لوگوں نے جب صبح سویرے اخبار مارکیٹ میں پہنچ جاتی تو انہوں نے اپنے بچوں کو مارکیٹ میں اخبار لینے کے لئے بھیج دیتے لیکن یہ طریقہ جب استعمار کو معلوم ہوئی تو انہون نے بچوں کو بھی اخبار دینے کی پابندیاں لگادی تاکہ اخبار کسی بھی فرد کو نہیں ملے۔

جس طرح وہ ریڈیو پر پابندیاں لگا چکا تھا انکی نشریات کو مختصر کرتے لوگوں کو کوئی چیز کا علم ہی نہ ہوتا انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ سامراج کی چال ہے اُس نے ریڈیو کی نشریات بند کردی ہے لیکن لوگوں کے ذہن میں کوئی اور آرہا تھا اور وہ ہر ایک دوسرے سے پوچھ لیا کرتے کہ ریڈیو کو کیا ہواہے ؟لوگون کو کچھ سنائی نہیں دیتی جب یہ خبر ملک میں پھیلی کہ اس طرح کے تاما حربے سامراج اختیار کررہی ہے تو لوگوں کے دلوں میں مزید اختلافات بڑھ گئی اور انکے دلوں میں انقلابی تحریک کے مجاہدین کے لئے جگہ بڑھتی گئی۔ اسی طریقے سے وہ الجزائر میں بے نقاب ہوتی چلی گئی تو اُس نے اپنی ظلم کی راستے کو تبدیل کر دیا اور لوگوں کے لئے ظلم کے پہاڑ کھودڈالی انہوں نے معصوم بچوں کے سرِ بسمل تڑپایا ،بے گناہ نوجوانوں کو شہید کردی ،عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور اّن لوگوں نے تمام ظلم برداشت کئے اور انکی زبان میں ایک ہی لفظ تھا ازادی ۔۔۔۔۔۔۔اور صرف آذادی۔ خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی ہی قیمت چکانی پڑے ہم دینے کو تیار ہیں لیکن اپنی موقف پر قائم رہیں گے ۔

میں نے پہلے عورتوں کی قربانیوں کے بارے میں زکر کیا کہ انہوں نے کس طرح اپنی مذہبی اور معاشرتی فریضہ کی قدر کی تھی اور اپنی ملک کی خاطر ظالم سامراج کے خلاف نکلے تھے۔

ابھی مصنف اپنے تیسرے باب میں فرانسیسی استعمار کے کئے گئے ظلم پر مکمل خاندان کی خدمات کے بارے لکھتا ہے کہ جب کسی خاندان ایک فرد جہد آجوئی میں شامل ہوتا تو انہیں ہزار بار اپنے خاندان کے لوگوں کے بارے میں سوچنا پڑتا کہ تمام تر ذمہ داریاں انہیں کی اُوپر تھے ۔جب وہ تمام زمہ داریوں کو پس پشت رکھ کر اپنے وطن کے لئے سوچ رکھتے انکے ذہن میں یہ سوچ لیتا کہ میرے پاس صرف دو راستے ہیں یا تو میں وطن کے لئے شہید ہو جاؤں گا یا سامراج کے خلاف لڑ کر اپنی قوم کو آزاد کرلوں گا ۔کیونکہ ابھی لوگوں کے پاس کچھ قبضہ گیریت کے خلاف کچھ نہ کچھ شعور آئی تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ لاپتہ کرنا اور مسخ شدہ لاش پھینکنا انکی روز مرہ کام بن چکی تھی تو ہر خاندان کے لوگوں کے دلوں میں سامراج کے خلاف ایک ولولہ انگیز جزبات پیدا ہوئی ۔

آگے مصنف لکھتا ہے کہ لوگوں نے دیکھا کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں تو پھر سیاسی جماعتوں نے مزاحمت کی راہ اختیار کرکے انقلابی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ نومبر 1954ء کے بعد انقلابی قیادت میں کچھ اور تبدیلی ہوئی کہ اور نوجوانوں نے ایک اور خواب جس میں وہ ایک نئے الجزائر دیکھ رہے تھے۔ اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اب یہ تبدیلی انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہونی چاہیے۔

پہلے اس آمرانہ رویوں اور استعمار کے ظلم کے خلاف ان لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا۔کہ اب وہ کسی کی غلام ہونے کو پسند نہیں کرے گی بلکہ ہر شخص ایک خود مختار راستہ کی تلاش خود کرلیں گے ۔
مصنف آگے باپ اور بیٹے کے بارے میں لکھتاہے کہ باپ اپنے بیٹے کو یہ کہتا تھا کہ آپ اپنے آپکو تھوڈا ذمہ دار بناؤ اور میں آپکو کسی نہ کسی جگے میں رشتہ ازدواج میں منسلک کردوں گا لیکن بیٹے کے دل میں استعمارانہ نظام کے خلاف کوئی اور آگ لگ رہا تھا ۔باپ نے باربار تنبیہہ کی لیکن باپ کی ایک نہ سنی گئی۔ جب باپ کو پتہ چلا کہ بیٹا اس طرح کی حرکتیں کررہا ہے تو باپ نے اُسے بہت سے وارننگ دے دی جب کہ بیٹا تیار نہیں ہورہا تھا بلاآخر باپ نے بیٹے کی اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اس جدوجہد کی حمایت کا اعلان کیا اور اسی طرح باپ اور بیٹے نے ایک ساتھ مل کر لڑائی کا فیصلہ کیا ۔

آگے مصنف بیٹی کے بارے میں لکھتا ہے کہ لڑکیوں کو استعمارانہ نظام کے خلاف بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا ۔لیکن وہ اپنے خاندانی روایات کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ حد تک خاموش رہے بالآخر انہوں نے اپنی خاموشی تھوڈ دی اور وہ جدوجہد میں شامل ہوئی۔ ویسے اگر دیکھا جائے اس کتاب میں مصنف نے الجزائر میں لڑکے اور لڑکی کے خاندانی رواج کے بارے میں بہت سے زیادہ چیزیں شامل کی ہیں لیکن میں صرف اِنکی جدوجہد کو شامل کرنا چاہ رہا ہوں ۔ لڑکیاں جب پردے میں تھے اور وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے تھے جب استعمارانہ نظام کے خلاف ایک آواز بن کر باہر نکلے تو اُنکی پردے بھی ختم ہوگئی اور یہی باپردہ عورتیں پہاڈوں میں جاکر وہاں انہوں نے جنگ کرنا شروع کردی۔

آگے بھائیوں کے تعلقات کے حوالے سے لکھتاہے کہ پہلے بھائی بھائی سے ناراض تھا کوئی کسی سے بات نہیں کرتا جب گوریلا مجاہدوں نے استعمارانہ نظام کے جہاد شروع کر دی تو تمام تر اختلافات ختم ہوگئے اور ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کا حصہ بنے اور اپنی تمام تر توانائیوں کو ایک ساتھ خرچ کرتے رہے۔

آگے مصنف خاوند اور اہلیہ کے بارےمیں لکھتا ہے کہ بیشتر خواتین نے اپنے شوہروں کو بزدل کہہ کر انہیں جہد آزادی کی طرف مائل کرتے تھے اور انہیں باربار تنبیہہ بھی کرتے کہ اگر آپ گرفتار ہو کر زندانون میں بند ہوگئے اپنی ایک ساتھی کا راز فاش نہیں کرنا اور جتنا ہوسکے اپنی مادر وطن کے لیے قربانی دینے کے لیے اپنے آپ کو بخوبی سے تیار کریں۔ لیکن یہ سب کچھ خاوند کو معلوم تھا۔

آگے مصنف الجزائر میں شادی کے رسم و رواج اور طلاق کے بارے میں لکھتا ہے لیکن میں کوشش کروں گا اس پر نہیں آجاؤں بلکہ میں اپنا ٹارگٹ اسی ٹاپک کوکرناچاہ رہا ہوں تاکہ یہ مزید زیادہ لمبا نہ ہو ۔

اس میں مصنف لکھتا ہے کہ الجزائر کے لوگوں کی جب شادی ہوتی تو مرد پہلے سے استعمارانہ نظام کے خلاف ایک آواز تھے اور اپنی جدوجہد کو آگے لے جارہے تھے۔ لیکن انکی بیویوں کو پتہ نہیں تھا جب وہ رات کے وقت اپنے گھر تشریف لے آتے بلکہ بیویاں مرد کے ساتھ بیٹھ کر انہیں طعنے بہ طعنے کرتے رہے کہ آپ نامرد ہیں اس نظام کے خلاف آپ کیوں کچھ نہیں کہتے؟ اور نہیں کرتے ؟ تمام لوگ اس ظلم کے خلاف یک زبان ہیں یہ آپ ہی ہیں کہ آپ خاموش ہیں ۔اس طرح کے طعنے کو دیکھ کر مرد کو تکلیف ہوئی کہ میری اتنی قربانیوں کے باوجود بھی مجھے اسطرح کے طعنے پڑ رہے ہیں بلآخر وہ براہ راست جہادیوں کے صف میں کھڑے ہوکر باقاعدہ اپنا جہاد شروع کردیا۔

حالانکہ اس سے پہلے بھی مرد جنگ کا حصہ تھے اور جنگ کرتے آرہے تھے استعمار کے خلاف لیکن وہ اس عمل کو خاموشی میں کیا کرتے تھے ابھی وہ سرِ عام جنگ کرنا شروع ہوگئے اور جدوجہد کا حصہ بنے۔

مصنف کتاب کے آخری باب میں ڈاکٹروں کے بارے میں لکھتا ہے کہ ڈاکٹروں کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ فلاں بندہ جہادی ہے اور وہ جہاد میں شامل تھا کہ انکا علاج نہیں کرنا چائیے اگر کسی ڈاکٹر کو پتہ ہوتا تو وہ اُن سے خفیہ راز لے کر فرانسیسی حکام کو دیتا اور وہاں سے اپنے لئے پیسے نکالتا ۔اور فرانسیسی استعمار ان معلومات کو لے کر انکی خاندانوں کو تنگ کردیتےتھے۔ اور بلاخر فرانسیسی استعماروں نے ڈاکٹروں کو پیسے کی لالچ دے کر انکی علاج کروانا بند کردی اور میڈیکل اسٹوروں میں بغیر نام اور پتہ کے دوائیوں کی ترسیل کو بند کردیا جہاں انکو معلوم ہوتا تو وہاں انہوں نے اپنے بندے سادہ لباس میں گشت کے لئے بھیج دی اور انہیں میڈیکل اسٹور کے مالکان کے خلاف کاروائیاں بھی شروع کر دی گئی۔ اس رویے کو دیکھ کر کچھ حد تک جہادیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور راہ میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ پیدا ہوتی گئی۔

جب یہ رویہ چلتا رہا تو الجزائر کے طلباءو طالبات جو ڈاکٹری اور نرسنگ پڑھ رہے تھے اور انکی یہ خواہش بڑھتی گئی کہ وہ اس جنگ میں شامل ہوجائیں بعد میں سیاسی و سماجی جماعتوں کی جانب سےاسطرح کے رویے کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان نوجوانوں کو بھی اس جنگ میں شامل کیا جائے تاکہ وہ زخمی حالات میں مجاہدون کی مدد کر سکیں تو گوریلا مجاہدوں نے انکے فیصلے کو قبول کیا اور انکو اُس تحریک میں شامل کیاگیا۔

مصنف آگے لکھتا ہے کہ الجزائر میں اس کے بعد صورتحال میں کچھ تبدیلیاں آنے لگیں اور بالآخر میڈیکل اسٹور کے مالکان نے فرانسیسی استعمار کے فیصلے کو رد کرکے جہادیوں کی مدد کرنا شروع کردیا اور وہ انکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور استعمار کے ہر ممکن کوشش کے بعد اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں