فرانز فینن اور اسکا تشدد کا نظریہ – دوستین کھوسہ

731

فرانز فینن اور اسکا تشدد کا نظریہ

تحریر : دوستین کھوسہ

دی بلوچستان پوسٹ

واجہ فرانر فینن کو اپنے وقت کے سب سے بااثر نوآبادیاتی مخالف مصنف (anti Colonial writer ) کے طور پر جانا جاتا ہے وہ ایک ماہر نفسیات ، سیاسی ورکر ، سیاسی و سماجی فلاسفر، مارکسسٹ ، قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک عملی جہدکار تھے۔ ان کی دانشورانہ تصانیفات، کتابیں اور تھیوریز مابعد نوآبادیاتی مطالعات، ( Decolonization theories) ، تنقیدی نظریہ ( critical theories) ، سیاہ فام افراد کی وجودیت ( Black existentialism ) مارکسزم کے شعبوں میں بے حد اثر انداز ثابت ہوئے ہیں جو کہ آج تک مظلوم اور مقبوضہ عوام کے رہمنائی کر رہے ہیں۔

پچھلی دس دہائیوں سے زیادہ عرصے ہوا کہ واجہ فین کی دانشورانہ تصانیف، نظریات اور سوچ نے آزادی کی تحریکوں کو متاثر کیا ہے جن میں فلسطین، تامل، کرد ، بلوچستان ، سندھ ، بنگلہ دیش ، افریقن تحریکیں شامل ہیں۔

انہوں نے الجزائر کی تحریک آزادی میں عملا ایک سرمچار حصہ لیا۔ فینن 20 جولائ 1925 میں کارائب میں پیدا ہوئے۔ وہ ویسٹ انڈین سیاہ فام تھے۔ان کے والد افریقی غلاموں کی نسل سے تھے اور کسٹم ایجنٹ کے طور پر کام کرتے تھے اور والدہ دکاندار کے طور پر کام کرتی تھیں۔ ان کا خاندان سماجی و اقتصادی لحاظ سے متوسط طبقے کا تھا۔فرانس میں ماہر نفسیات کا کورس کر رہے تھے۔جب ماہر نفسیات بننے میں ایک سال رہ گیا تھا انہوں نے پڑھائی چھوڑی اور الجزائر کی جدو جہد آزادی میں عملا شامل ہوئے۔ وہ “المجاھد” نامی اخبار میں مضامین لکھا کرتے تھے۔

فرانز فینن کی مشہور کتابیں درج زیل ہیں۔

‏1) The wretched of the Earth
‏2) Black skin , white masks
‏3)A Dying Colonialism
‏4) Towards the African Revolution
‏5) Alienation and Freedom
‏6) The Fact of Blackness
‏7) Decolonizing madness

فرانز فینن کی موت 6 دسمبر 1961 کو کینسر کی وجہ سے ہوئی ۔انکی عمر اس وقت 36 برس تھی۔ ان کو جب کینسر کا علم ہوا تو انہوں نے الجزائر کی جنگ آزادی کی قیادت کو کہا کہ انہیں جنگ آزادی میں عملا ایک جہدکار کے طور پر شامل کیا جائے کہ وہ ایک بند کمرے میں میز کے پیچھے کی موت نہیں چاہتے۔انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں” بن مہدی ” نام کے قبرستان میں دفنایا جائے جہاں جنگ آزادی کے تمام شہیدوں کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس قبرستان کا نام” بن مہدی” ایک الجزائری جنگ آزادی کے شہید سرمچار کے نام سے رکھا گیا جس نے بہادری اور دلیری سے فرانسیسی افواج کا مقابلہ کیا اور شہید ہوکر امر ہوگیا۔ فینن کو وہی بن مہدی قبرستان میں دفنایا گیا۔ فینن کو الجزائری معاشرے میں فرانز ابرہیم فینن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

سامراج سرمایہ داری نظام کی سب سے جدید ترین اور ظالمانہ ترین شکل ہے۔ اس میں دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار دنیا کے لوگوں، ملکوں، قوموں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کے لیے اتحاد کر لیتے ہیں۔ اور اس سے اس ملک، سرزمین، قوموں کے وسائل کی لٹ وپل کی جاتی ہے اور سستی مزدوری، تجارتی منڈی اور معدنیات حاصل کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کا یہ اتحاد سامراج کہلاتا ہے۔ اور قبضہ کیے گے ملکوں پر اپنے ایجنٹوں ،زرخریدوں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں، معاشی پروگراز کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے۔ دنیا کے جدید سامراجوں میں پاکستان اور ایران ہیں جنہوں نے بلوچستان پر قبضہ کیا ہے۔ بھارت جو کہ کشمیر کے علاؤہ بہت سے ریاستوں پر قبضہ گیر ہے۔اسرائیل جو کہ فلسطین پر قبضہ گیر ہے۔ترکی جو کردوں کی سر زمین پر قابض ہے۔ اسی طرح امریکہ ، اٹلی ، جاپان ، برطانیہ ، فرانس ، چین سب سے بڑا سامراج ہے۔

نوآبادیاتی نظام سامراج کی پیداوار ہے جس وقت سامراج وجود میں آیا تو اسے آپنی تجارتی منڈیوں ، خام مال ، سستی مزدوری ، وسائل ، معدنیات کی ضرورت پڑی تو اسنے دنیا کے مختلف قوموں ، ملکوں ، ریاستوں پر فوج کشی کرکے طاقت کی بنیاد پر قبضہ کر لیا۔ اور اس قبضہ سے مالی ، اقتصادی ، تجارتی ، فوجی فائدے حاصل کرنے لگا۔ قوموں ، ملکوں اور ریاستوں پر قبضے کرکے اور وہاں کے لوگوں کو غلام بنا کے وسائل کی لٹ و پل کے عمل کو نو آبادیاتی نظام کہتی ہیں۔
جن قوموں کو پر قبضہ کیا جاتا ہے ان کو نوآبادی ، دیسی باشندہ ، یا کالونائزڈ لوگ کہا جاتا ہے۔ اور قبضہ گیر کو کالونائزر یا نوآبادکار کہا جاتا ہے۔

ڈی کالونائزیشن سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے مختلف کالونیاں، مقبوضہ قومیں، نوآبادیاتی ملک سے آزاد ہو جاتی ہیں ۔ ڈی کالونائزیشن مقامی یا دیسی باشندے کی ثقافتی، نفسیاتی اور معاشی آزادی ہے جس کا مقصد مقامی باشندے کی خودمختاری ہے کہ وہ اپنی زمین پر خود مختار ہو اور اپنے سیاسی ، سماجی ، اقتصادی فیصلے خود کرسکے اور کسی کا غلام نہ رہے۔

فینن کہتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ایک اندھا، برہنہ اور ایک واضح تشدد ہے جس سے نوآبادیاتی نظام قائم ہوتا ہے اور یہ تب ہی ختم ہوتا ہے جب اس کا مقابلہ اس سے کہیں زیادہ، شدید اور واضح انقلابی تشدد سے ہوتا ہے۔ فینن دلیل دیتا ہے کہ نوآبادیاتی مخالف جہدوجہد یعنی اینٹی کالونیل جدو جہد کو اصلاح پسندی کی بجائے انقلابی ہونا چاہیے۔
فینن کہتا ہے کہ ڈی کالونائزیشن کا عمل ہمیشہ پرتشدد اور تباہ کن ہوتا ہے۔ فینن کہتا ہے کہ ڈی کالونائزیشن کا عمل ایک نئے انسان کی حقیقی تخلیق کرتا ہے یا مقامی کا نیا جنم ہوتا ہے اور اس جنم میں قدرت کا کوئ عمل دخل نہیں بلکہ اس عمل کا تعلق اس لمحے سے ہے جس میں اس انسان کو غلام بنایا گیا اور اسکی خود کو اس غلامی سے آزاد کرنے کی جدو جہد ہی اسے ایک نیا انسان بناتی ہے۔
فینن کا تشدد کا نظریہ اور اس کے کالونائزڈ پر اثرات کے منفی اور مثبت دونوں پہلو کو بیان کرتا ہے جو کہ فینن کے زاتی مشاہدات ہیں۔ فینن کبھی بھی بغیر وجہ یا مفت کے تشدد کا پرچار نہیں کرتا بلکہ فینن کے بقول تشدد کی صلاحیت یا شدت کا انحصار اس چیز پر ہے کہ مقامی کس قسم کی قبضہ گیریت کو ختم کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے۔
فینن کہتا ہے کہ کالونائزیشن کا عمل دو فورسز کا آپس میں آمنا سامنا جو کہ ایک دوسرے کے قطعاً مخالف ہیں، اور ان کے اس آمنے سامنے کی شروعات ہی تشدد سے ہوتی ہے جو کہ نوآبادکار کرتا ہے جس کا مقصد مقامی ہر قسم کا استحصال ہوتا ہے۔فینن کہتا ہے کہ نوآبادکار کا ظلم اور تشدد اس چیز پر انحصار کرتا ہے کہ اس کے پاس کس قسم کے ہتھیار موجود ہیں اور اسکی ملکی معاشی صورتحال کیسی ہے، فینن کہتا ہے کہ اگر قبضہ گیر کی معاشی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو وہ قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی کی مکمل نسل کشی سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ نوآبادکار اپنی حکمرانی کو تشدد اور جبر کے ذریعے برقرار رکھتا ہے اور یہ عمل مقامی لوگوں کے ذہن اور وجود میں تشدد کو جنم دیتا ہے ہے ۔ فینن کہتا ہے کہ تشدد نوآبادیاتی حکمرانی کی قدرتی حقیقت ہے یہ تشدد اس نسل پرستانہ خیالات اور تعصب سے نکلتا جو کہ نوآبادکار مقامی کے بارے میں سوچتا ہے۔ کالونائزر مقامی کو پسماندہ، وحشی اور جنگلی سمجھتا ہے اور کہتا ہے ان میں سوچنے کی صلاحیت نہیں ہے یہ زہنی مفلوج ہیں اس سے غیر انسانی سلوک کرتا ہے اور اسے جانور سے تشبیہ دیتا ہے اور خود کو مزید تشدد کا جواز بخشتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے وحشی اور جانور تشدد کی زبان کے بغیر کوئ اور طریقہ بلکل سمجھے گا نہیں۔

فینن کہتا ہے کہ مقامی تشدد کو قبضہ گیر سے سیکھتا ہے جوں جوں کالونائزر تشدد کرتا جاتا ہے مقامی باشندہ اس کو سیکھتا جاتا ہے۔
فینن کہتا ہے کہ انقلابی تشدد کے دو مقصد ہوتے ہیں ایک قبضہ گیر کی اپنی سرزمینوں سے مکمل بے دخلی اور مقامی سیاہ فام باشندے کی زہنی آزادی یا زہنی ڈی کالونائزیشن۔

فینن کہتا ہے ایک مقامی کے لیے خود کو قبضہ گیریت سے تشدد کے زریعے آزاد کرنا ایک انتہائی جوشگوار اور آزاد کن تجربہ ہوتا ہے جس سے مقامی اپنے اندر کی تمام بھڑاس نکال کر پرسکون محسوس کرتا ہے۔ Black skin White Mask میں فینن کہتا ہے کہ مقامی کو چاہیے کہ وہ اجتماعی طور تشدد کے طریقے کو استعمال کرکے ہی اجتماعی زہنی سکون اور آزادی محسوس کرسکتے ہیں اور اپنے اندد کا تمام غصہ ، بھڑاس نکال سکتے ہیں اور خود کو زہنی کوفت سے صاف کرسکتے ہیں ۔
فینن کہتا ہے کہ تشدد مقامی کو زہنی سکون کے ساتھ اسے احساس کمتری سے نکالتا ہے جو نوآبادکار نے اسکے زہن میں ڈالی ہوتی ہے اور تشدد اسکی کھوئی ہوئی عزت نفس کو بحال کرتا ہے اور اپنی سیاسی زندگی پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا شروع کرتا ہے جوکہ پہلے قبضہ گیر کے قبضے میں ہوتی ہے۔ فینن کے مطابق تشدد مقامی کو اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے اور وہ واپس انسانیت کی طرف آہستہ آہستہ آنے لگتا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ تشدد سے مقامی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی ، اس کی سانس، اس کا خون، اسکی جلد یا چمڑی نوآبادکار جیسی ہی ہے اور یہ دریافت اسے جنجھوڑ اور ہلا کر رکھ دیتی ہے اسے احساس ہونا شروع ہوتا ہے کہ میری زندگی نو آباد کار کی زندگی جتنی ہی قیمتی ہے، یہ انکشاف اسے جھنجھوڑتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کس طرح قبضہ گیر نے اس کا استحصال کرکے اس سے اسکے جینے کے حق سے محروم کیا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ جہد کاروں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کا عملی اور جسمانی استعمال انہیں انسانیت کی یاد دلاتا ہے جو کبھی ان سے قبضہ گیر نے چھینی تھی اور یہ عمل انہیں دوبارہ زندہ کرتا ہے اور دوبارا تخلیق کرتا ہے اور زہنی اور جسمانی آزادی کا احساس دلاتا ہے فینن تجویز کرتا ہے کہ تشدد مقامی کو اس کے احساس کمتری اور اس کی مایوسی اور بے عملی سے آزاد کرتا ہے۔ یہ اسے نڈر بناتا ہے اور اس کی عزت نفس کو بحال کرتا ہے لہذا انقلابی تشدد نوآبادیاتی رعایا کو خود کو دوبارہ تخلیق کرنے یا اس طریقے کو بحال کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے جس طرح وہ استعمار سے پہلے تھے۔ یہ نوآبادیاتی فرد کو ایک آزاد اور خود مختار وجود کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔. فینن کہتا ہے کہ اگر تشدد بغیر مقصد کے ہوگا اور بلاجواز ہوگا اور اگر جہدکار کی بندوق کسی دلیل اور منظق کی پیروکار نہیں ہوگی اگر تشدد سے بے گناہوں اور معصوموں کا خون بہے گا تو یہ مقامی کو قومی جدو جہد سے بد زن کرے گی اور مقامی جدو جہد سے مایوس ہو جائے گا اس لیے تشدد کو ہمیشہ باجواز اور مقصد ہونا چاہیے۔ فینن کہتا ہے کہ مقامی آبادی کے لیے اپنی جدوجہد پر قائم رہنے کے لیےضروری ہے کہ مقامی لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جدو جہد کس کے خلاف کررہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں اور انکی جدو جہد کا مرکز اور مقصد کیا ہے۔

فینن کہتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ نوآبادیاتی ممالک میں بزگر طبقہ ہی اصل انقلابی ہیں، کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اور حاصل کرنے کے لیے سب کچھ ہے۔ طبقاتی نظام اور قبضہ گیریت سے پسہ ہوا انسان ہی وہی ہے جو یہ دریافت کرتا ہے کہ صرف تشدد ہی واحد حل ہے اس کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں ہے، اور کسی بھی شرط پر آنا ممکن نہیں ہے کالونائزیشن اور ڈی کالونائزیشن میں ایک رشتہ ہے وہ طاقت اور تشدد کا رشتہ۔ فینن کہتے ہیں کہ جوابی تشدد مرہم کی طرح ہوتا ہے جوکہ زخموں پر مرہم لگاتا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ مقامی باشندے کے لیے سب سے اہم چیز اور اہمیت کی حامل چیز اس کی زمین ہے اسکی وطن ہے جو اسے زندگی دیتی ہے، کھانے کو دیتی ہے اور سب سے اہم چیز اسکو شناخت دیتی ہے اور عزت دیتی ہے۔ فینن کہتا ہے کہ سامراج جب آتا ہے تو وہ ہماری زمین پر جراثیم چھوڑ کر جاتا ہے جن کو ہم نے نفسیاتی، زہنی اور عملی طور پر ختم کرتا ہے جوکہ انقلابی جدو جہد سے ختم ہونگے اور انقلابی تشدد سے ختم ہونگے۔

فینن کہتا ہے کہ پڑھے لکھے طبقے کی عدم تیاری، ان کے اور عام عوام کے درمیان عملی روابط کی کمی ، ان کی سستی اور کاہلی ، اور کہا جائے کہ جدوجہد کے فیصلہ کن لمحے میں ان کی بزدلی المناک حادثات کو جنم دے گی۔

فینن کے بقول تشدد میں زہنی اور دماغی امراض کو دور کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے مقامی نوآبادکار کو توپک اور مزاحمت کے طاقت سے اپنی سرزمین سے باہر پھینک کر مقامی اپنی زہنی اور اعصابی بیماری کا علاج کرتا ہے فینن اس کی مثال اپنی Psychological پریکٹس سے دیتا ہے کہ قبضہ گیر کا مستقل پروپیگنڈہ، مستقل منفی خیالات ایک مستقل مدت کے دوران مقامی کو اسکی اپنی شناخت پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ میں کون ہوں؟‘‘ فینن بعد کہتا ہے الجزائر جنگ اور قبض گیریت کی وجہ سے ذہنی بیماریوں کے لیے ایک سازگار افزائش گاہ ہے فینن نفسیاتی بیماریوں میں ’سائیکوسومیٹک ڈس آرڈرز‘
‏” psychosomatic disorders ”
کا زکر کرتا ہے جو نوآبادیاتی صورتحال ، قبضہ گیریت سے الجزائر کے لوگوں میں سے پیدا ہوئی۔ فینن کہتا ہے کہ ان بیماریوں کا علاج صرف اور صرف انقلابی تشدد ہے اور فینن اسے cleansing force کا نام دیتا ہے۔

فینن تشدد کے خطرناک اور منفی اثرات کو بھی بیان کرتا ہے تشدد اور جنگ کا ابتدائی اور سب سے واضح منفی پہلو وہ جسمانی نقصان ہے جو مقامی کو پہچتا ہے۔ فینن کہتا ہے کہ ‘جب مقامی کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب اس کی بیوی کو قتل یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو وہ کسی سے شکایت نہیں کرتا۔ فینن کہتا ہے کہ تشدد مقامی کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

جنگی شدت اور تشدد کی وجہ سے فینن نے جنسی امراض میں مبتلا افراد بھی دیکھے جنہیں زہنی مریض بنا دیا گیا تھا۔

ایک شخص نے فینن کو بتایا کہ کس طرح ایک جہدکار کی بیوی کو ٹارچر کیا گیا، پھر ریپ کیا گیا اور اس کی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی جب فرانسیسی فوجیوں نے اس کے گھر سے بارودی مواد کو پکڑا یہ سن کر وہ جہدکار جو اپنے خاندان سے دور پہاڑوں میں جنگ لڑ رہا تھا، خوفناک زہنی اور نفسیات دباؤ کا شکار ہوا ۔فینن ایک اور واقعہ بھی بیان کرتا ہے کہ جب ایک جہدکار تنظیم میں شامل ہوا تو اسے یہ پیغام بھیجا گیا کہ اس کی ماں اور بہنیں فرانسیسی فوجیوں کے ہاتھوں ماری گئی ہیں۔فینن کہتا ہے کہ وہ نیم پاگل ہوگیا ۔ فینن کہتا ہے کہ مقامی لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ استعمار یا قبضہ گیر کبھی بھی کچھ بھی بغیر سپنے مقصد یا فائدے کے نہیں دیتا۔

فینن بیان کرتے ہیں کہ ہم تیسری دنیا کے لوگوں کو قبضہ گیروں کو نہ صرف اپنی سرزمینوں سے بھگانا چاہیے بلکہ ان کے دیے گئے ہر نظام کو بھی ختم کرنا چاہیے اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہمیں جنگ لڑنے اور جانیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر ہمیں ان سے جنگ ختم کردینا چاہیے ان کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم گورے بالوں والوں کو نکال کر کالے بالوں والوں کو حکومت میں بٹھا دیں اور نظام وہی کا وہی ہو اور صرف چہرہ تبدیل ہو جائے تو ایسے آزادی کا کوئی فائیدہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے یورپ ایک تھا پھر امریکہ نے خود کو یورپ میں ڈھال دیا پھر یورپ دو ہوگئے۔ اب تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ یورپ تین ہو جائے۔ فینن کہتے ہیں کہ یورپ کا نظام انسانیت کی تذلیل ہے کیونکہ وہ انسانیت کو سرمایہ داری نظام کی بھینٹ چڑھاتی ہے ، اس میں انفرادیت ہے اور اس میں کالے اور گورے کا فرق ہے ، نسل کا فرق ہے اور اس میں طاقت کی بنیاد پر دوسرے قوموں کی سرزمین پر جبری قبضے ہیں اور وسائل کی لٹ وپل ہے۔ فینن کہتے ہیں کہ ہمیں آزادی حاصل کرکے ایک نیا معاشرہ تعمیر کرنا ہوگا جس میں زندہ انسان ہو، زندہ معاشرہ ہو اور ایک ایسا نظام ہو جس میں انسانیت کی خدمت ہو اور امن اور خوشحالی ہو۔ جس میں کالے ، گورے ، رنگ و نسل نہ ہو جس میں طاقت کی بنیادوں پر دوسرے کی سرزمین پر قبضہ نہ ہو۔ فینن کہتے ہیں ہم اصل میں اس وقت آزاد ہوں گے جب ہم قبضہ گیر کی دی گئی سوچ، تہزیب، نظام ، تعلیمی نظام ہر چیز ختم کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں