ناصر پہاڑوں کا شہزادہ – شنز بلوچ

380

ناصر پہاڑوں کا شہزادہ

تحریر: شنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں ایک ادنیٰ سا طالب علم وطن کا عشق سیکھنے بولان گیا تھا، وطن کے عاشقوں کے راستوں سے ہو کر وطن پر اپنی جانیں نثار کرنے والوں کی داستانیں سننے پہنچ گیا تھا۔ جہاں ہر دن دوسرے دن سے اچھا گذرنے لگا وطن کے عشق میں مگن عاشقوں سے عشق کی داستانیں سنتا جاتا کوشش ہوتی کہ ان عاشقوں میں اپنا بھی نام ہو. شہید امتیاز، چیئرمین، ماما میندو، اور میرے محبوب شہیدوں اور عاشقوں میں میرا نام بھی آجائے.

ہر گذرتا ہوا دن خوبصورت ہوتا جارہا تھا دل بولان میں لگ گیا تھا ایک تھکا ہارا سا دل جو دنیا کی بےحسی دیکھ دیکھ کر تھک چکا تھا سکون اور سکون صرف بولان میں آنے لگا تھا جان قربان کرنے والے سنگتوں کو دیکھ دنیا کی جھوٹی زندگی بھول گیا تھا.

بولان میں سردیوں کی بارشیں شروع ہوگئیں تھیں اور ہم پناہ کی تلاش میں تھے کہ اچھا سا جگہ ملے جہاں ہم بارشوں کا موسم گزاریں اور جنگی حکمت عملی بناکر دشمن کو ضربیں لگائیں دوست اکھٹے ہونے لگے.

دوستوں کا ایک وفد بڑے دنوں بعد ہمارے ساتھ ملنے کے لیے آیا ان میں ایک دوست ناصر بھی تھا، بڑے بال چاند جیسا روشن چہرہ اور چہرے پر مسکراہٹ ہمیشہ سجی رہتی ان کے آنے سے ہمارے جان میں جان آگئی جو بارشوں سے تھوڑے تھکے ہوئے تھے ناصر اور لشکر کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی۔

ہر کام میں ناصر آگے رہتا لکڑیاں اکھٹے کرنی ہو، روٹیاں بنانی ہو، چائے بنانا ہو ناصر آگے ہوتا سارے کام ایسے شوق سے کرتا کہ اسے دیکھ ساری تھکاوٹیں دور ہوجاتی اور ناصر کو دیکھ کر خیال آتا کہ واقعی تُو تو بنا ہی بولان کے لیے ہے۔

ایک دن نیٹورک پر جانا ہوا ناصر بھی ساتھ تھا پہاڑوں پر ایسے چڑھتا جیسے ناصر صدیوں سے واقف تھا، پہاڑوں سے پہاڑ تو بنے ہی ناصر کے قدموں کے لیے ہے کوئی چیتا پتھروں کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے

نیٹورک پر پہنچ کر ناصر کو پتا چلا کہ اس کے والد کو فوج والے اٹھا کر لے گئے اور فون پر ناصر کو بتا رہے ہیں کہ تمہارے والد ہمارے قبضے میں ہے اور سامنے سے ناصر انہیں ایسا سنا رہا کہ کچھ ہوا ہی نا ہو ناصر تو بنا ہی قربانی کے لیے تھا۔

آج جب پتا چلا کہ ناصر نے دشمن کے ساتھ گھنٹوں لڑائی کی اور آخر میں وطن پر جان نثار ہوا دل سے آواز نکلی ناصر تو کامیاب ہوگیا۔ ایف سی اہلکار جو ویڈیو میں پوچھتا ہے کون ہے ناصر؟ ناصر عاشق وطن ہے پہاڑوں کا شہزادہ ہے.

آج کا نوجوان جنگی حکمت عملی اور فکری پختگی سے لیس ہے جو آخری گولی اور آخر لمحے تک لڑنے کی ہمت رکھتا ہے آج کا نوجوان جہد کار استاد اسلم کا پیروکار ہے۔

آج کے نوجوان کو پتا ہے انصاف مسلح جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا میرا بندوق ہی میرا بہترین ساتھی ہے آخری دم تک آخری گولی تک دشمن کو یقین دلاتا رہونگا کہ تمھاری شکست یقینی ہے تم سینکڑوں کی تعداد میں آ کر بھی شرمندہ لوٹوگے میں تمھیں آخر تک ضربیں لگاتا رہوں گا اور عشق وطن میں امر ہوجاؤں گا.

سنا ہے کہ ناصر اب بھی اپنی سرخ آنکھوں، دھنسے ہوئے چہرے اور پریشان بالوں سے خوشنما معلوم ہورہا تھا دشمن کی خوف سے آزاد اپنے دل و دماغ آزاد ملک کے زمین پر بیٹھا اپنے محبوبہ سے پیار کررہا تھا۔ شہید دوستوں کے جسم گھسیٹے گئے مگر اب بھی اس کے جسم سے خون رس رہا تھا دھنسی آنکھوں میں امید کا نور جاگ رہا تھا وہ وطن کا مٹی سونگھ رہا تھا.

اب ماؤں نے بھی وچن لیا ہے ہم ایسے سپوت پیدا کرتے رہینگے جو وطن پر جان نچھاور کرکے تاریخ میں امر ہوجائیں. “رخصت اف سنگت اوارن سوچ اتو فکر اتو عشق اتو”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں