میر محراب – فتح بلوچ

304

میر محراب

تحریر: فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر برطانوی نوآبادیاتی سامراجی دور کی جدوجہد آزادی کی تاریخ کے حوالے سے آزادی کے لئے لڑی جانے والے جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو خان محراب خان جنوب مغربی ایشیا کے ایک عظیم وطن پرست اور آزادی پسند اور وطن اور اس کی آزادی کی حرمت کے پاسبان اور جان نثار نظر آتے ہیں-

13 نومبر 1839 کو بلوچ ریاست اور آنے والی نسلوں کی دفاع کے لئے خان محراب خان نے انگریز سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جان دی مگر سمجھوتہ نہیں کیا –

182 سال پہلے بلوچ وطن کی دفاع کے لئے مزاحمت کا فلسفہ آج کے دن تک کئی نسلوں کو منتقل ہوتے ہوئے زندہ ہے –

خان محراب خان کی وطن سے محبت اور مزاحمت آج کئی نسلوں بعد کلیلکور کے میر محراب بلوچ تک منتقل ہوچکا ہے –

محراب کے وطن میں دشمن کی قہر اور عام آبادیوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کی بمبارمنٹ نے کئی خاندانوں کو اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے اور کیلکور کا میر محراب کئی نوجوانوں کے لاشوں کو دفنانے کے بعد اپنے علاقے سے ہجرت کر کے بلوچستان کے مہرستان ہوشاب میں آباد ہوا-

لیکن دشمن نے وہاں بھی میر محراب کے خاندان پر حملہ کیا اور دو کمسن بچوں کی لاشیں تھما دی –

لیکن اس مرتبہ میر محراب نے رات کی تاریکی لاشوں کو دفنانے کا روایت توڑ کر دو کمسن بچوں کی میتوں پر بلوچستان کا مقدمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا –

شال کی یخ بستہ سرد راتوں میں سر پر روایتی بلوچی دزمال اور کمزور آنکھوں میں آنے والے نسلوں کی خوشحالی کا خواب لیے میر محراب بے حس حکمرانوں کے در کے باہر سراپا احتجاج ہے اور پورا بلوچستان کو درپیش صورتحال کا مقدمہ لڑ رہا ہے –

میر محراب اور اس کے گرد کا ہجوم یہ جانتا ہے کہ اس احتجاج سے بلوچستان کے بستیوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ اور جنم لیتا انسانی بحران تھم نہیں سکتا ہے مگر وہ اس جدوجہد میں حصہ ڈال کر انے والے نسل کی مشکلات کم کرسکتے ہیں –

اسلم کے عہد میں جینے والا بلوچ نوجوان کو قومی نجات کا راہ اور طریقہ معلوم ہے بندوق کی نوک، قلم اور آوازوں کی صدا کا ایک مقصد ہونا چاہئے تاکہ بولان کی پہاڑوں پر لڑنے والے باغی کا خواب خوشحال بلوچستان اور شہداء کی خون بہانے کا قومی مقصد پورا ہوجائے –


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں