حملوں کے باعث خوف زدہ ہیں – بلوچستان میں کام کرنے والے چینی ورکر

1150

بلوچستان میں کام کرنے والے چینی ورکر اپنے سیکورٹی کو لے کر پریشانی کا سامنے کررہے ہیں –

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک چینی کارکن نے کہا کہ حملوں کے باعث پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں –

انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھیوں پر حملہ ہوا ہے تو تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں –

انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے سیکورٹی کے انتظامات بہتر کیے ہیں مگر اور بہتر کرنے ہونگے۔ پوری طرح سے حملے کرنے والوں کا خاتمہ نہ ہونا ہمارے لئے پریشانی کا باعث ہے۔

چینی کارکن نے کہا کہ ہم اکثر اوقات اپنے کارخانے میں رہتے ہیں اور ہمارے کھانے کا بندوبست ہمارے مترجم کرتے ہیں –

چینی کارکنان کے ساتھ کام کرنے والے ایک فیکٹری مالک حاجی محمد کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی مشکلات کا سامنا ہے، حکومت کہتی ہے کہ بلٹ پروف گاڑی لو اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ انکو ابھی موومنٹ نہیں کراؤ –

چینی کارکنان کو کراچی سے بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں لانے والے ڈرائیور کے مطابق انکی کھانے کی وجہ سے بھی ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔

خیال رہے رواں سال اگست کے مہینے میں چائنیز انجنیئرز اور ورکروں کے گاڑیوں کے قافلے کو گوادر میں ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

سی پیک کو بلوچ سیاسی و عسکری حلقوں کی جانب سے استحصالی منصوبہ قرار دیا جاچکا ہے جس کے ردعمل میں سیاسی حلقوں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک مختلف فورمز پر احتجاج کرنا اور بلوچ مسلح آزادی پسند جماعتوں کی جانب سے سی پیک و دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

سی پیک، سیندک اور دیگر پراجیکٹس کے باعث بلوچستان میں چائنیز انجینئروں و دیگر اہلکاروں پر سال 2018 سے خودکش حملوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

سال 2018 کو اگست کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چائنیز انجینئروں کے بس کو، اُسی سال 23 نومبر کو کراچی میں چائنیز قونصلیٹ کو اور 2019 کے 11 مئی کو گوادر میں پانچ ستارہ ہوٹل کو بلوچ خودکش حملہ آوروں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا جبکہ گذشتہ سال پاکستان اسٹاک ایسکچینج کو کراچی میں خودکش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تھا۔

مذکورہ تمام حملوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے بیانات میں واضح کیا کہ مذکورہ حملے بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے کی۔ علاوہ ازیں بی ایل اے سمیت بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح آزادی پسندوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف اوقات میں بلوچستان میں حملوں کا نشانہ بنانے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔

جبکہ رواں مہینے جاپان سے ہفتہ وار شائع ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی اخبار “نکی ایشیاء“ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں چائنا بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت تعمیر ہونے والے چائنا پاکستان کوریڈور بلوچستان میں جاری شورش کے باعث کراچی کے ساحل پر منتقل کیا جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق ایک غیر متوقع فیصلے میں پاکستان اور چین نے جنوبی ساحلی علاقے بلوچستان میں جاری مسائل کے بعد ممکنہ طور پر گوادر سے پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مرکزی مرحلے کے طور پر کراچی ساحل کو ترقی دینے پر اتفاق کیا ہے۔