تصویر بولتی ہے کہ تصویر بولتا ہے – منظور بلوچ

654

تصویر بولتی ہے کہ تصویر بولتا ہے

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیجیٹل دور ہے، ہر چیز ڈیجیٹل ہوچکی ہے۔ ڈیجیٹل دور کے چور بھی ڈیجیٹل ہیں۔ جنہوں نے آفشور کمپنیاں بنائی تھیں، وہی حکمران تھے، عمران خان نے بتایا تھا۔

ڈیجیٹل عہد میں ہائبرڈ نظام حکومت ہے، ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے، پاکستانی ٹی وی اینکر شور مچاتی اسکرینوں پر بتا رہے تھے۔

آف شور کمپنیوں کو نہیں چھوڑوں گا، پاکستان کے اصل غدار نواز شریف اور زرداری ہیں۔ چور ہیں، عمران خان کب سے بتا رہا ہے۔
ڈیجیٹل عہد تیزی سے بدل رہا ہے آنے والی دو تین دہائیاں بہت اہم ہیں، دنیا بدل رہی ہے، بہت بدل جائے گی۔ ہمارے برکت اسماعیل مستونگ فیسٹیول میں اپنے بچوں کو مخاطب کر کے بتا رہے تھے۔

ڈیجیٹل عہد بھی تو ٹیکنالوجی کا عہد ہے انسان نے ترقی ہی ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر کی۔ زرعی تہذیب میں، غلام داری تہذیب میں، پہلی ٹیکنالوجی پتھر تھا، دوسری ٹیکنالوجی لوہا تھا، تیسری ٹیکنالوجی بجلی تھی، چوتھی ٹیکنالوجی انجن تھا، علماء نے کتابوں میں لکھا ہے۔ پہیہ، بجلی، انجن نے دنیا کو تبدیل کیا، ارسطو  نے غلام داری تہذیب کو عقل کی ٹانگوں پر لا کھڑا کیا، علماء نے لکھا ہے۔

ارسطو، سکندر اعظم کا اتالیق تھا۔ اس کی ماں پر عاشق تھا۔ اچھا کیا، ارسطو  نے سکندر اعظم کی خاطر دیوتاؤں اور صنم خانوں کو عقل کی ٹانگیں دی، برا کیا۔ افلاطون کس کی ماں کا عاشق تھا، معلوم نہیں، ایک عالم نے بتایا تھا۔

جمہوریت جھوٹ ہے، پہلی جمہوریت ایتھنز میں قائم ہوئی، اس پہلی جمہوریت میں غلاموں کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا، لیکن غلام اچھے تھے، غلام داری کی تہذیب اچھی تھی، کیونکہ دنیا نے ترقی کی عالموں نے بھی بتایا تھا۔

ایتھنز کی جمہوریت اور اسمبلی سقراط کا مقابلہ نہیں کر پائے، ایک چمڑا فروش کی مخالفت اور دشمنی سقراط کو مہنگی پڑی، جمہوریت نے پہلا خون کیا۔ ایک فلسفی کے قتل کے احکامات اسمبلی نے جاری کیے، سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ سقراط کے شاگرد بھی اس عہد کے دیوتاؤں کی طرح جھوٹے نکلے، بائیولوجی کے ایک بڑے پاکستانی پروفیسر نے اپنی کتاب میں بتایا تھا۔

ڈیجیٹل عہد ہے۔ لیکن بلوچستان میں تو آج بھی چرواہا معیشت قائم ہے، لوگ پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں، ان کے پاؤں غاروں کی جنگل کی تہذیب پر نظر آتے ہیں، لیکن ان کا سر ڈیجیٹل آسمان سے جڑا ہوا نظر آتا ہے، پتھر کے زمانے میں رہنے والے بلوچستان کے چرواہوں کے پاس بھی ڈیجیٹل سمارٹ موبائل فونز ہیں، لیکن سرخ مخلوق کہتی ہے کہ چرواہا معیشت نہیں ہے، طبقاتی معیشت ہے، سرخ جدوجہد کی جائے، اٹھنے والی مزاحمت کی ہر تحریک کو لال ہونا چاہیے، لال جدوجہد، لال انقلاب، سرخ مخلوق تھری پیس کوٹ پہنے، قیمتی ٹائی لگا کر بلوچوں کے لیے آرام دہ دفتروں میں بیٹھ کر کتابیں لکھ رہے ہیں، سر کھپارہے ہیں، محنتی لوگ ہیں، سو سو کتابیں لکھی ہیں، باقی سارے بے عمل لوگ ہیں جو باتیں بناتے ہیں، تنقید کرتے ہیں۔

ڈیجیٹل دور ہے، تصویروں کا دور ہے، پل میں تصویریں وائرل ہوتی ہیں۔

بلوچستان میں، ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت میں، بلوچستان اسمبلی میں ابھی ابھی تازہ جنگ ہوئی ہے، جس کا نام تحریک عدم اعتماد رکھا گیا ہے، چرواہا معیشت کے بی این پی، باپ، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی والے سارے لوگ مل گئے ہیں، ایک دسترخوان ہے، ایک تصویر بہت وائرل ہو رہی ہے، جس میں بی این پی کے ثناء بلوچ، عدم اعتماد تحریک کے روح رواں ہیں، تصویر میں باپ والوں کے ساتھ مل کر قدوس بزنجو کے ساتھ خوشیاں منارہے ہیں، بی این پی کا موقف کیا ہے، پتہ نہیں، کیفوں میں، دفتروں میں عام آدمی کی بحث ہو رہی ہے۔

جام برا تھا، قدوس بزنجو اچھا ہے، سی ٹی ڈی کے فیک انکاؤنٹر کو روکا جائے گا، اس سے بھلا اور بڑی بات بلوچوں کی حق میں کیا ہوگی، ایسا ثناء بلوچ نے ٹوئٹر پر کہا تھا۔ دروغ بہ گردن راوی، راوی ایک سیاسی کارکن ہے، وہ کبھی نیشنل پارٹی میں سرگرم عمل کارکن تھا، اس نے ایسا بتایا تھا۔

تحریک عدم اعتماد سے قبل بلوچستان میں ایک بڑے قد کے آدمی، دراز شخصیت کی رحلت ہوئی تھی جس کے سینے میں بلوچوں کی سات دہائیوں کی زندہ تاریخ دھڑک رہی تھی، لیکن اب وہ خاموش ہے، ہماری محفل سے جاچکا ہے۔

یہ آدمی جو بڑے قد کا تھا، بلوچوں کی نئی تاریخ کے ساتھ عشروں کا عینی شاہد تھا، وہ اس تاریخ کا ایک زندہ کردار تھا، وہ پہلی صف کا قائد تھا، لیکن اس کا سوگ صرف چالیس روزوں کے لئے تھا، ایسا اعلان بی این پی نے کیا تھا، چالیس روزہ سوگ کے دن پورے ہوئے یا نہیں، عام بلوچ کو یاد ہے یا بھول گیا ہے، لیڈروں کو ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔

باپ پارٹی کب بنی تھی؟راوی نے سوال پوچھا تھا، ایسا اس وقت ہوا تھا جب بلوچستان میں، چرواہا معیشت میں، حکومت قوم پرستوں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کی بنی تھی، جس کو آدھا آدھا بانٹ لیا گیا تھا، پہلے کا آدھا ڈاکٹر مالک بلوچ کو ملا تھا، اس نے وزارت کا لطف اٹھایا تھا، لیکن سردار ثنا اللہ زہری آدھی مدت کا پورا لطف نہیں اٹھا سکا، ڈائریکٹروں کی ضرورت تھی، بی این پی ساتھ تھی، اخباروں میں لکھا تھا، ٹی وی کی شور کرتی ہوئی اسکرینوں پر بتایا گیا تھا۔ قدوس بزنجو اور بی این پی کی دوستی اتنی نئی بھی نہیں، اتنی پرانی بھی نہیں، لیکن عوام کی یادداشت کمزور ہے، ایک تھڑہ چھاپ نے نیا سیاسی تجزیہ داغ دیا۔

بی این پی اور باپ، پھر ہاتھ میں ہاتھ ملائے مسکرا رہے ہیں، بی این پی کا دانش ور لیڈر ثناء بلوچ نے کہا تھا، کہ یہ اچھا ہے، بلوچوں کیلئے، بلوچستان کیلئے۔

جب قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بنے گا، تو میں پیپر ورکنگ کروں گا، نوجوانوں کا ایک بہت بڑا وفد لے جاؤں گا، بلوچستان کا خوشحال مستقبل ہماری مجبوری ہے، ایسا ثناء بلوچ نے کہا تھا۔

باقی بی این پی، شاید اپنے اور تاریخ کے سب سے بڑے رہنماء کا سوگ منا رہی ہوگی، سوگ میں مٹھائیاں بانٹنا، کھانا اور کھلانا، بلوچوں کی روایت نہیں ہے، بڑے بوڑھے ایسا ہی کہا کرتے تھے، لیکن اب ڈیجیٹل دور ہے، پاپوں کا دور ہے، باپوں کا دور ہے۔
کیفے میں بحث جاری ہے، کالجوں میں پڑھانے والے ماسٹر اگلے وزیر اعلیٰ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، کون بنے گا کروڑ پتی؟

پاکستان میں، جمہوری نظام میں، پیش گوئی نہیں کی جاسکتی، قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے، ایک اور ماسٹر کا تجزیہ تھا، کیونکہ باپوں کے اس دور میں فیصلہ کہیں اور سے ہوتا ہے، جہاں ڈائریکٹر اسکرپٹ بناتے ہیں، بگاڑتے ہیں، اس بنانے اور بگاڑنے میں کبھی کبھی جاموں کی تقدیر بھی بگڑ جاتی ہے، بزنجوؤں کی بنتی بنتی بن جاتی ہے۔ جمہوریت ہے، سارے بلوچوں نے آپس کی رنجشیں بھلا دی ہیں، جمہوری نظام کی خاطر، کہیں تو اتفاق ہوا، مایوس بلوچوں کو خوش ہونا چاہیے، جو کہتے رہتے ہیں کہ کہیں بھی بلوچ آپس میں اتحاد نہیں بناتے۔ شاید بلوچوں کی تاریخ میں چاکر و گہرام کبھی ایک نہیں رہے، لیکن نئی تاریخ میں محمود و ایاز ایک بنے ہیں، ایک صف میں کھڑے ہیں، جہاں قوم پرستوں، باپ والوں، شریعت کا نظام لانے والوں، سب نے اتحاد کیا ہے، بلوچوں کو بھی خوش ہونا چاہیے۔

چرواہا معیشت میں، جمہوریت کو مضبوط ہونا چاہیے، بی این پی اور نیشنل پارٹی کا اس پر اتفاق ہوا ہے، بلوچوں کا نمائندہ جماعت بی این پی ہے یا نیشنل پارٹی اس پر بی این پی اور نیشنل پارٹی کا اتفاق نہیں ہے۔

سردار، سلیکٹڈ، ایلیکٹڈ، متوسط طبقہ کے لیڈر اور ملا، سارے ایک ہو چکے ہیں، نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز، لیکن نیشنل پارٹی پھر سے متوسط طبقہ کا نعرہ مستانہ بلوچستان کی فضاؤں میں اچھال رہی ہے، اخبارات میں ان کے لیڈروں کے بیانات میں ایسا ہی کہا گیا ہے۔ بی این پی اور نیشنل پارٹی پر تنقید نہیں ہونی چاہیے، اس پر سیاسی کارکنوں کا اتفاق ہے۔ جو تنقید کرے، اس کے پاس فالتو وقت بہت ہے، ایسا شخص بے عمل ہے، صرف تنقید کرتا ہے، صرف بی این پی پر تنقید کرتا ہے، صرف نیشنل پارٹی پر تنقید کرتا ہے، ایسے شخص کی کردار کشی کرنی چاہیے، قوم پرست پارٹیوں کے وکیل سوشل میڈیا پر متفق نظر آتے ہیں، فیک آئی ڈیز بھی بننے لگتی ہیں، تم بھی تو سی ایم ہاوس آئے تھے، ایک سیاسی کارکن ناراضگی سے کہہ رہا تھا، جو شخص سی ایم ہاوس میں آئے جائے اس کو تنقید کا حق نہیں ہے، یہ کیا تم ہر وقت ہماری پارٹی پر تنقید کرتے ہو، کیفے میں سیاسی کارکن ناراضگی سے کہہ رہا تھا۔

ہاں بالکل تنقید نہیں ہونی چاہیے، بلوچوں کو سب کو اکھٹے ہونا چاہیے، جمہوریت زندہ باد۔

دنیا کی پہلی جمہوری حکومت ایتھنز والوں نے بنائی تھی، غلاموں کو ووٹ کا حق نہیں تھا، اسمبلی نے سقراط کو زہر پلایا تھا، سیاسی کارکن پرانی اور کتابی بات کرکے اپنا غصہ نکال رہا تھا، سیاسی کارکن بھی سیانے ہو چکے ہیں، آخر وہ بھی دنیا دار ہیں، ہم سبھی دنیا دار ہیں، پاپی پیٹ کا مسئلہ ہے، حرام اور حلال کی باتیں ڈیجیٹل دور میں کہنا بے وقوفی ہے، ایک حمام میں سب ننگے ہیں، سیاسی کارکن وکیل بن کر کہہ رہا تھا۔

اس بار کوئی تنقید نہیں، کوئی نکتہ چینی نہیں، کیوں؟ لوگ برا مانتے ہیں، لوگ ناراض ہوتے ہیں، مستونگ لٹریری فیسٹول میں کالج کے ایک ماسٹر نے یہی بات سوالوں کے وقفوں میں بتائی تھی ، لوگوں نے، شریک طلبہ و طالبات نے تالیاں بجائی تھیں، پارٹیاں، مقدس ہے، تعلیم مقدس ہے، جمہوریت مقدس ہے، استاد مقدس ہے، پروفیسر مقدس ہیں، دانش ور مقدس ہیں، شاعر اور ادیب بھی مقدس ہیں۔

عام آدمی، جو نوے فیصد آبادی کا نمائندہ ہے، اسے اجازت نہیں کہ وہ مقدس شخصیات اور اداروں پر بات کرے، وہ اپنے کام سے کام رکھے، ڈیجیٹل عہد میں بھی تو غلام داری تہذیب ہے لیکن غلام داری تہذیب ڈیجیٹل ہے۔

غلام داری تہذیب کے ڈیجیٹل غلام بھی وفادار ہوتے ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، اطاعت گزار ہوتے ہیں، غلام داروں کی چاپلوسی کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، حرام کماتے ہیں، ڈیجیٹل عہد میں غلامی کی تہذیب بھی ڈیجیٹل ہے۔

پاکستان پر آف شور کمپنیاں حکمران ہیں، بائیولوجی کا پنجابی پروفیسر اپنی نئی کتاب میں عمران خان کے ساتھ کھڑا تھا، لیکن بلوچستان کی چرواہا معیشت میں کنسٹرکشن کمپنیوں کی حکومت ہے، سیاسی کمپنیاں بن چکی ہیں، جو ترقیاتی اسکیموں کی جمہوریت کے پجاری ہیں، لیکن ایسا کہنا منع ہے، ایک اور سیاسی کارکن وکیل بنا ہوا تھا، غلام داری کی کل کی تہذیب میں بھی اور آج کی ڈیجیٹل تہذیب میں بھی سوال اٹھانا منع ہے، جو ایسا کرے گا، وہ عبرت کی مثال بن جائے گا۔

سپارٹیکس کو بھول گئے، تیس سال کا نوجوان، جو رومن امپائر کو چیلنج کرنے لگا تھا، مارا گیانا بے موت۔

مزاحمت مذاق تو نہیں ہوتی، لیکن سپارٹیکس کے مرنے کے بعد بھی بغاوت کا دیوتا مسکرا رہا تھا، ایسا بائیولوجی کے پروفیسر کی کتاب میں لکھا تھا۔ رومن امپائر کا خاتمہ ہو چکا ہے، سپارٹیکس مر چکا ہے، اب نیا عہد ہے، نئے عہد کا دیوتا بھی ڈیجیٹل ہے۔

پیسہ تو زندگی کا کرنٹ ہے، ایسا اکبر علی ایم اے نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔

ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت کے قوم پرست لیڈر اس کرنٹ کو جانتے ہیں، سمجھتے ہیں پاکستان میں ہائبرڈ نظام حکومت ہے، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے نئے اور سنگین تنازعہ کے بعد اینکر پرسن اسد طور بتا رہا تھا۔ بلوچستا ن بھی تو ڈیجیٹل عہد میں ہائبرڈ نظام میں داخل ہو چکا ہے، سوگ اور مٹھائیاں، قوم پرست اور باپوں کی پارٹی ہائبرڈ ہے۔

ڈیجیٹل عہد میں آف شور کمپنیاں حکمران ہیں، حکومت ہائبرڈ ہے اور ففتھ جنریشن وار چل رہی ہے، ہارون رشید، اوریا مقبول جان، حسن نثار سبھی یہی تو کہہ رہے تھے، لیکن بلوچستا ن میں چرواہا معیشت میں، سیاسی کمپنیاں حکمران ہیں، ایسا کوئی نہیں کہے گا، کہنا بھی نہیں چاہیے، وہ ماسٹر لٹریری فیسٹول میں ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ لوگ اختلاف پر برا مانتے ہیں، پی آر ختم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسا نہیں کہنا چاہیے، اپنی دال روٹی کی فکر کرنی چاہیے۔

غلام داری تہذیب میں جانوروں کی طرح انسانوں کو بھی سدھایا جاتا ہے، غلام اپنے غلام دار آقا کی بات اور اشارے تک کو سمجھ جاتے تھے، ناچ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا۔

یہ پرانی بات ہے، اس وقت سمارٹ فونز نہیں ہوتے تھے۔ ڈیجیٹل عہد میں تنقید بھی ڈیجیٹل ہو چکی ہے، اب تنقید کی ضرورت نہیں، اختلاف رائے کی بھی ضرورت نہیں، کیونکہ تصویریں بولتی ہیں، اور بلوچستان میں تو تصویر بولتا بھی ہے، سیانے اور سمجھ دار لوگ تصویروں کو دیکھ کر سب کچھ سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ ایک تصویر پوری ایک کتاب پر بھاری ہوتی ہے۔ ایسا ہمیں صحافت کے دوران سینئر صحافیوں نے بتایا تھا۔ دنیا بدل رہی ہے، نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، ”انسانیت کا مستقبل“ نامی کتاب میں میشیو کاکو نے بتایا تھا۔

کیا چرواہا معیشت، نئی دنیا میں کھوٹا سکہ ثابت نہیں ہو گا، اس سوال پر جواب دینے والے نے کہا تھا، ایسا ہو بھی جائے۔ تو جنت سے کم نہیں، لیکن ڈیجیٹل عہد میں، جہاں آف شور کمپنیاں نیشن اسٹیٹ کو کھا رہی ہیں، جغرافیائی سرحدوں کو توڑ رہی ہیں، ڈیجیٹل سکہ بھی ایجاد ہو چکا ہے، آنے والے دور میں چرواہا معیشت ایک پھونک جیسی ہوگی، ایک مایوس لکھاری لکھ رہا تھا۔

ہمیں مایوسی کی ضرورت نہیں، مایوس لوگوں کی وجہ سے قوم کا بہت نقصان ہو رہا ہے، ایسے لوگ پورے سماج کیلئے مضر ثابت ہو رہے ہیں، یہ بات ایک لال دانش ور نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کے وقت کہی تھی۔

ایک وائس چانسلر کو بھی ایسی مایوسی کی باتوں پر بہت غصہ آ رہا تھا، یہ کوئی تحریر نہیں ہے، یہ کوئی جرنلزم نہیں ہے، صرف اور صرف پارٹی دشمنی ہے، ایک سینیٹ کے لیڈر کے اپنے ایک کمنٹ میں ایساہی لکھا تھا، ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت کی اسمبلی میں اتحادی بلوچوں نے کامیابی حاصل کی ہے، جام ہار چکا ہے، تاریخ میں جاموں کی یہ پہلی ہار ہے، آخری ہو نہیں سکتی، کیونکہ بزنجوؤں اور جاموں کا چشمہ ایک ہے، اب تو ان سبھوں کا چشمہ ایک ہے۔ لیکن اب کی بار دایاں، بایاں ہو رہا ہے، بایاں،دایاں ہو رہا ہے۔

بلوچستان کے قوم پرست جمہوریت کی باتیں کر رہے ہیں، جمہوریت کو بچانے کیلئے بلا رنگ پارٹیوں میں مساوات کی بات کر رہے ہیں، دوسری جانب جماعت اسلامی نیشنلزم کی بات کر رہی ہے، ہدایت الرحمن، جماعت اسلامی والے، بلوچستان اور بلوچوں کی بات کر رہے ہیں، کبھی وہ بھی جمہوریت کی بات کرتے تھے۔

ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت میں، اسمبلی میں، جمہوریت کے عظیم دیوتا کی خوشی کی خاطر سبھوں نے اپنی تفریق اور امتیاز کو مٹا ڈالا ہے، سب ایک جیسے ہو گئے ہیں، یہ نئے عہد کی ڈیجیٹل جمہوریت ہے۔ کالے اور گورے، سردار اور متوسط طبقہ میں اب کوئی امتیاز باقی نہیں رہا ہے، ڈیجیٹل جمہوریت میں پارٹی منشور کی ضرورت نہیں، دائیں، بائیں کی تمیز کی بھی ضرورت نہیں، جام ہو یا بزنجو، وزارت چلنی چاہیے، ڈیجیٹل جمہوریت میں اختلاف نہیں، اتفاق ہے، ایم پی اے فنڈز پر سبھی کا اتفاق ہے۔ پی ایس ڈی پی پر سبھی کا اتفاق ہے، جام نے جو کیا، بزنجو بھی وہی کرے گا، بزنجو جو کرے گا، جام نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

پی ڈی ایم میں فحاشی کے خلاف بولنے والے اور قوم پرستی کو باطل قرار دینے والے، قوم پرستوں کے ساتھ کھڑے ہیں، قوم پرست مسلم لیگ کے ساتھ کھڑی ہے، پیپلز پارٹی بلوچستان میں باپ کے ساتھ کھڑی ہے، ہر طرف مساوات ہے، بھائی چارہ ہے، بلوچستان میں شانتی ہے۔ بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کی نہریں بہہ رہی ہیں، جام نے اپنی وزارت میں بار بار کہا تھا۔

ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت کی جمہوریت پر تنقید ناقابل برداشت ہے، نفرت انگیز ہے۔ لیکن ڈیجیٹل عہد میں، چرواہا معیشت کی اسمبلی میں اکثریتی ارکان خوش ہیں، مٹھائیاں کھا رہے ہیں، بلوچستان ترقی کے نئے عہد میں داخل ہو رہا ہے، کیونکہ تصویریں بول رہی ہیں، اور کبھی کبھی تو تصویر بولتا بھی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleشاہرگ بم حملے میں قابض پاکستانی فوج کے 2 اہلکار ہلاک کیئے – بی ایل اے
Next articleکوئٹہ میں بلوچ لاپتہ افراد کیلئے احتجاج جاری
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔