بلوچ قومی جنگ کے وجود کا مقصد – کوہ زاد بلوچ

350

بلوچ قومی جنگ کے وجود کا مقصد

تحریر: کوہ زاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ یا جدو جہد یا مزاحمت دراصل زندگی کا حصہ ہے۔ جیسے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ‘مزاحمت زندگی ہے’۔ واقعی یہ زندگی ہے اور زندگی کا حصہ ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جنگ و جدو جہد کا مختلف اغراض یا مقاصد کیلئے مرتکب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ پیسے کیلئے جنگ کرتے ہیں، یعنی کہ خود کو پرآسائش کرنے، زندگی کے ذاتی خواہشات میسر کرانے یا سہولت یافتہ کرنے کیلئے۔ انتقام لینے کےلئے جنگ کیا جاتا ہے۔ کچھ اس انتقام سے بچنے کیلئے یعنی کہ اپنے دفاع کیلئے کرتے ہیں۔ کچھ اپنے شوق سے کرتے ہیں، یعنی کہ ان کا شوق ہوتا ہے تو وہ اپنا شوق پورا کرنے کیلئے جنگ کا مرتکب ہوتا ہے۔ کچھ چوری و لوٹ ماری کیلئے کرتے ہیں۔ ان کے علاؤہ ، کچھ دوسروں کے مال و سرزمین پہ قبضہ کرنے یا ان کے ساحل و وسائل کی لوٹ ماری و استحصال کیلئے کرتے ہیں۔ استعماری طاقتیں دوسرے اقلیتی اقوام کو مظلوم و محکوم بنا کر استحصال کرنے کیلئے جنگ کرتے ہیں۔ اور مظلوم و محکوم اقوام کسی استعمار کے خلاف اپنی دفاع اور بقاء و تحفظ کیلئے کرتے ہیں۔ کسی ظالم یا استعمار کے زیادتیوں، ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف کیا جاتا ہے۔ کسی ناجائز، غلط اور بری نظام جو مسلط کیا گیا ہوتا ہے سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے جنگ کیا جاتا ہے۔ حقوق کے تحفظ کیلئے کیا جاتا ہے۔ اپنے ساحل و وسائل کے تحفظ کےلئے کیا جاتا ہے۔ کسی کو اس کی انسانی حقوق نہ ملنے کے خلاف کیا جاتا ہے۔ کسی استعمار کو اپنی سرزمین سے بھگانے کےلئے کیا جاتا ہے جو اس نے جبرن قبضہ کیا ہوتا ہے، یعنی کہ قبضہ گیر کے خلاف کیا جاتا ہے۔

اسی تناظر میں میں اپنے یعنی کہ بلوچ قوم کی موجودہ جاری جنگ و جدو جہد کی غرض و مقصد کو اپنے علم و شعور کے مطابق واضح کرتا چلوں کہ اس جنگ کے وجود کا مقصد آخر کیا ہے. بلوچ قومی جنگ و جدو جہد کس لئے ہو رہا ہے؟ بلوچستان جو ہماری (بلوچ قوم کی) سرزمین ہے اس میں ہم یعنی کہ بلوچ نسل لگ بھگ گیارہ ہزار سال سے رہتے آ رہے ہیں۔ بلوچ قوم یا نسل نے قدیم تاریخ سے لے کر جدید تاریخ تک کئی بار مختلف دشمنوں سے مثلاً لٹیروں، قبضہ گیروں، نو آبادکاروں اور سامراجیوں یا استعماری طاقتوں سے اپنی بقاء و تحفظ اور سرزمین کی دفاع کیلئے جنگ و جدو جہد کی ہے۔اسی طرح موجودہ بلوچ قومی جنگ یا تحریک بلوچ قومی بقاء کیلئے ہو رہا ہے۔ غیر فطری ریاست پاکستان کی جانب سے ارتکاب کی ہوئی بلوچ نسل کشی کے خلاف ہو رہا ہے۔ یاد رہے بلوچ قوم میں خانہ جنگی پیدا کرنا، ان میں اسلحہ کلچر عام کرکے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کروانا، حقوق مانگنے پر لاپتہ کرنا، فیک انکاؤنٹر میں مارنا، یا لاپتہ کرکے ہمیشہ کیلئے نامعلوم مقام پر مرنے تک قید و بند کرنا جیسے دوسرے مختلف طفیلی ذرائع یا منصوبوں سے بلوچ کی نسل کو تباہ کرنا بلوچ نسل کشی کا حصہ ہیں جن کے خلاف یہ جنگ ہو رہی ہے۔ اس کو روکنے کےلئے ہو رہی ہے۔

بلوچستان پر پاکستانی تسلط و قبضہ کے خلاف یہ جنگ ہو رہی ہے۔ وہ تسلط و قبضہ جو پاکستان نے بلوچستان پر 28 مارچ 1948ء کو باقائدہ خان آف قلات کو ایک نام نہاد الحاق کے کاغذات پر جبرن دستخط کروا کے کیا تھا۔ تب سے شہزادہ میر عبدالکریم سے لے کر آج تک اس جبری قبضہ اور نام نہاد الحاق کے خلاف جنگ و جدو جہد جاری ہے۔ کیونکہ تب سے آج تک جب ہم بلوچ اس نام نہاد الحاق اور غصب سے خوش اور رضامند نہیں ہیں تو ہمارا حق اور فرض بنتا ہے کہ اس زبردستی اور ناانصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ہماری جنگ اس ناانصافی کے خلاف ہے۔ اس نام نہاد الحاق کے خلاف ہے۔ اس قبضہ کے خلاف ہے۔

ان کے علاؤہ، ایک استعمار یا سامراج کی ایک مظلوم و محکوم قوم پر کیسے منصوبے، عزائم اور سازشیں ہوتی ہیں یہ آج کے ایک خواندہ اور مفکر کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ہماری جنگ ان سازشوں، منصوبوں اور عزائم کے خلاف ہے۔ اس استعماریت یا استعماری نظام کے خلاف ہے جو ہم پر انگریز کے بعد غیر فطری ریاست پاکستان نے مسلط کیا ہے۔

60 سے 70 برس سے ہمارے وسائل لوٹ کر پنجاب اور بیرون ممالک لے جائے جارہے ہیں۔ ہمارے ساحل و وسائل کے استحصال ہو رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ساحل و وسائل سے محروم کرتے آرہے ہیں۔ ہماری جنگ اس استحصال کے خلاف ہے۔ اس لوٹ ماری کے خلاف ہے۔ اس استحصال و لوٹ ماری کو روکنے کےلئے ہے۔ اس ارتکاب کے خاتمے کےلئے ہے۔ ان وسائل پر سے پنجابی اور بیرونی لوٹ ماروں کو بھگا کر بلوچ قوم کو ان پر اختیار دینے کیلئے ہے۔ وہ پیسے اور مال جو ان ساحل اور وسائل کے ذریعے کما کر پنجاب اور بیرون ممالک لے جائے جارہے ہیں ان کو بلوچ کے گھر میں پہنچانے کےلئے ہے۔ وہ وسائل و پیسے جو نام نہاد سردار میر و متعبر اور نواب اور نام نہاد بلوچ حکومتی نمائندے ریاست پاکستان کی پشت پناہی سے اپنے ذاتی ملکیت سمجھ کر لوٹ کر اپنے لیے بینک بیلنس جمع کر رہے ہیں اور اپنی زندگی شاہانہ بناتے آرہے ہیں ان کو بلوچ خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے ہو کے گھر میں پہنچانے اور اسے حصہ دار و شراکت دار بنانے کیلئے ہے۔

ہماری جنگ اس نظام کے خاتمے کےلئے ہے جس میں ہمارے لوگ، نوجوان، پیر و کماش، طلباء و طالبات اپنے حقوق مانگتے ہیں گرچہ پرامن اور جمہوری طریقے سے تو انہیں ان کے حقوق دینے کے بجائے ان کو مروائے عدالت اٹھا کر لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں لے جا کر تشدد کرتے اور پھر یا تو سالوں تک عقوبت خانوں میں بند کرتے ہیں یا قتل کرکے گمنام جگہوں پہ پھینک دیتے ہیں۔ یا انہیں روڑوں اور چوراہوں پر مارتے اور گھسیٹتے ہیں۔ ہماری ماں بہنوں یا عورتوں کو زلیل کرتے ہیں، ان پر تشدد کر کے گھسیٹتے ہوئے ان کے سر پر سے چادریں کھینچتے ہیں جو بلوچی ننگ و ناموس و غیرت اور روایات کی سخت پامالی ہے۔ ہماری جنگ اس پوری نظام اور ریاستی استعماری عناصر کی ایسی رویہ کے خلاف اور ان کے خاتمے کےلئے ہے۔ ہماری جنگ ہر وہ ناجائز تشدد، زیادتی، ناانصافی اور ظلم کے خلاف ہے جو بلوچ قوم کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔

ہماری جنگ اس آزادی اظہار کی بحالی کےلئے ہے جو ہم سے چھینی گئی ہے، پامال کیا گیا ہے۔ ہماری جنگ ذرائع ابلاغ کی مکمل آزادی کیلئے ہے۔ ذرائع ابلاغ، کتابوں اخباروں وغیرہ کو سنسر شپ سے آزاد کرانے کیلئے ہے۔ ہماری جنگ ہر اس غلامی اور مظلومیت سے آزادی کیلئے ہے۔ بلوچ قوم کی مکمل آزادی و خودمختاری کیلئے، اس کی حق خودارادیت کیلئے ہے۔ ہماری جنگ بلوچ قوم کیلئے ایسی نظام لانے یا نافذ کرنے کیلئے ہے جس میں بلوچ اپنی مکمل آزادی سے اپنے حقوق مانگ سکے۔ اپنی مکمل آزادی سے اپنے خیالات، نظریات اور فلسفوں کا اظہار کر سکے۔ اپنی مکمل آزادی سے بلوچستان کے کھونے کھونے کی زیارت کر سکے۔ بلوچستان کے کھونے کھونے کو اپنی ہی ملکیت سمجھ کر گھوم سکے۔ جہاں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جہاں اسے ہر دس سے پندرہ کلومیٹر پر اپنی شناخت بتانا نہ پڑے۔ اسے کوئی تکلیف نہ دے دے۔ اسے کوئی تنگ نہ کرے۔ کوئی اسے اذیت نہ پہنچائے۔ کوئی اسے پریشان نہ کرے۔

ہماری جنگ اس ڈر کے خاتمے کےلئے ہے جو بلوچ قوم میں پیدا کیا گیا ہے۔ لاپتہ ہونے کا ڈر۔ کسی سے قتل ہونے کا ڈر۔ بار بار اپنی شناختی کارڈ دکھانے کا ڈر۔ سفر میں مختلف وجوہات کی بنا پر تصادم ہونے کا ڈر۔ کسی بھی طرح کے وکٹم ہونے کے ڈر کے خاتمے کےلئے ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں