ابھرتا ہوا بلوچ رہنماء، جن کی پشت پر گوادر کی پانیاں کھڑی ہیں – منظور بلوچ

469

ابھرتا ہوا بلوچ رہنماء، جن کی پشت پر گوادر کی پانیاں کھڑی ہیں

تحریر: منظور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج 3 اکتوبر ہے، اس وقت خزاں کی خنک شام میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں، آجکل شال بھی بڑا نرالا ہے، شام کو حبس بھی ہوتی ہے، ہوا خنک بھی ہو جاتی ہے، کیفے میں گزشتہ رات کو بیٹھے وقت ہوا اتنی سرد ہو گئی کہ مجھے کپکی کا احساس ہونے لگا، تو ہمارے قلات کے دوست اقبال بلوچ نے گرم اور تازہ چائے کا ایک اور کپ کی آرڈر دیا، شال کی صبحیں آجکل بہت رومان پرور ہیں، علی الصبح بادل آسمان پر چھا جاتے ہیں، اور انور کمال ڈیپارٹمنٹ میں گفتگو کے دوران کہتا ہے کہ آج کی صبح تو چلتن جانے کا تقاضا کرتی ہے، اور جواب میں، میں اسے اور اپنے دوسرے شاگرد وحید مینگل کو کہتا ہوں، ہاں واقعی انور جان، موسم تو چلتن کا ہی بنتا ہے، لیکن نہ تم لوگوں کے پاس گاڑی ہے، اور نہ میرے پاس، اس لئے شاہ فیصل اور جاوید کی ڈیپارٹمنٹ کی سیاہ چائے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرو۔

لیکن پھر دن گرم ہونے لگتا ہے، بعض اوقات ماتھے پر پسینوں کا گمان ہوتا ہے، یونیورسٹی کالونی میں داخل ہوتے ہوئے ٹیچرز ہاسٹل کے ساتھ مکیش بھائی کی چھوٹی سی دوکان میں پنکھا چل رہا ہوتا ہے، مکیش اور اس کے بیٹے مستونگ سے ہیں، اس لئے اچھی براہوئی بولتے ہیں، مکیش کہتا ہے ”اُر نہ ولدا باسنی مس“
لیکن شال کی آج کل کی صبح ہے، وہ تو محمد رفیع کے اس گانے کی یاد دہراتا ہے
آج موسم بڑا بے ایمان ہے
آنے والا کوئی طوفان ہے
آج گھر میں باہر سے مہمان آئے تھے، تو دن کو کسی یار بھیلی سے نہ تو کوئی ملاقات ہوئی اور نہ ہی چائے کا دور چلا، مہمانوں سے فارغ ہو کر ٹیچر ہاسٹل کے روم میں محمد حسین عنقا کی آپ بیتی پڑھنے لگا، اُن کی یہ کہانی بلوچستان کی جدید تاریخ کے بہت سے مغالطوں اور جھوٹ و کذب کی کہانیوں کا پردہ فاش کرتی ہے۔ جب میں ان کی یہ آپ بیتی مکمل پڑھ چکا، تو گھر جانے لگا، اقبال بلوچ کی کال آئی اور پوچھا کہ آج شام کو چائے خانہ آنے کا موڈ ہے، میں نے کہا چشم ما روشن، دل ما شاد۔
بھلا کون کافر شام کی خنک فضاء میں منیر احمد خان روڈ کے کیفے میں چائے کی دعوت سے ٹھکرا سکتا ہے، لیکن اس سے قبل کہ میں چائے خانہ کی راہ لیتا، تو مجھے خیال آ رہا تھا۔
آنے والا کوئی طوفان ہے

ہاں واقعی طوفان تو بلوچستان کی ساحلوں پر آ چکا ہے، دونوں صورتوں میں، قدرتی طوفان اور ساتھ میں ایک عوامی طوفان، اس عوامی طوفان کے پیچھے جماعت اسلامی کے نوجوان راہنما ہدایت الرحمان بلوچ کھڑے ہیں، اور آجکل گوادر سے لے کر تمام بنیادی انسانی حقوق کی بے باکی سے مانگ کرنے والا یہ بلوچ رہنما بلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے مقابلے میں نہ صرف پڑھا لکھا ہے بلکہ طرز خطابت کے اسرار و رموز، زیر و بم سے آگاہ بھی ہے، اسے سیکیورٹی اداروں کے طاقت ور افسروں کے سامنے مکالمے کا کمال اور اپنی بات پر ڈٹے رہنا، اور دوسرے فریق کو منوانا بھی اسے بلوچستان میں ایک ایمرجنگ لیڈر کے طور پر ابھار رہا ہے۔

ہدایت الرحمن بلوچ کھل کر بلوچ مقدمہ لڑ رہے ہیں، دھڑلے اور جرات کے ساتھ، کوئی خوف نہیں، آئی جی پولیس کے احکامات کو خاطر میں نہیں لارہا، وہ کہہ رہا ہے کہ آئی جی لاکھ منع کریں کہ مجھے کیچ جانا ہے میں پولیس کی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لانے والا۔

کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر یہ ابھرتا ہوا بلوچ رہنما چادر اور چار دیواری سے لیکر گوادر کے بلوچوں کے ہر انسانی حق اور احترام بلوچیت کے معاملات پر سیکیورٹی حکام کے ساتھ ڈائیلاگ کر رہا تھا، قوم پرست رہنماؤں کے رویہ کی بجائے اس کی گفتگو میں دلیل، ایک طاقت، ایک اخلاص اور بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ کے احترام کے مطالبات، جرات مندانہ لہجہ بول رہا تھا، اب اس نے احتجاج کی بھی کال دی ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا کہنا ہے کہ اگر اس راہ میں ان کو شہادت نصیب ہوتی ہے، اس کے باوجود فکری دوستوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ وہ غیر قانونی عمل، بلوچوں کے بچوں، خواتین، نوجوان، بوڑھوں کے قتل کی شدید مذمت کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔

ہدایت الرحمن بلوچ کی بلوچ سیاسی افق پر آمد اور دبنگ انٹری نے سبھی کو چونکا دیا ہے، اور نوجوان اس کی جانب مائل ہوتے جا رہے ہیں، ان کی تعریفیں ہو رہی ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کم از کم اس وقت بلوچ قومی سیاست کے صف اول کے لیڈر کے طور پر دیکھے اور مانے جا رہے ہیں۔

تا دم تحریر ان کا احتجاج اور پولیس حکام کی ان کو اجازت نہ دینے کے باوجود معاملات کیا ہیں؟ اس کا صرف پس منظر بیان کر رہا ہوں، آج کی رات کیا ہوئی ہے، یا اس سے قبل کیا ہوا، یا آئندہ کیا ہوگا،ان سب کو جانے بغیر ہدایت الرحمن بلوچ ایمرجنگ لیڈر شپ نے بہت سے حلقوں میں سیاسی اضطراب بھی پیدا کر دیا ہے۔اس نوجوان رہنماء کو لے کر مختلف بلوچ حلقے مختلف تجزیے کر رہے ہیں۔

ایک حلقہ کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ خطہ کے نئے سیاسی منظر نامہ میں جماعت اسلامی کی سیاست میں دوبارہ روح پھونکنا ہے، تاکہ افغانستان کے معاملات ہوں یا پاکستان کے سیاسی بحرانات میں جماعت اسلامی کو بھی ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

دوسرے حلقے کا یہ خیال ہے کہ طالبان کا کابل پر قبضہ کے بعد، تمام مذھبی سیاسی جماعتوں اور حتی کہ کالعدم سیاسی مذھبی جماعتوں میں ایک نئی توانائی پیدا ہوئی ہے جس کے اظہار کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی (ف) اچانک پاکستان میں صف اول کی سیاسی جماعت کی حیثیت حاصل کر چکی ہے، عام تاثر میں ان کو طالبان کا گاڈ فادر کہا جا رہا ہے، انہی تجزیہ نگاروں کے مطابق کابل میں جے یو آئی (ف) کے طالب علم اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہیں اور یہاں پاکستان میں ان کا استاد کس طرح اپوزیشن میں ہونے کے باعث سیاسی طور پر دھکے کھائے اور اسے دیوار سے لگایا جائے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد، جے یو آئی ف کو بلوچستان حکومت لانے کے سوا اور کیا تھا؟ کیونکہ طالبان کے کابل پر قبضہ نے مولانا فضل الرحمن کی مذھبی سیاسی جماعت کو دیوہیکل طاقت مہیا کی ہے، اقتدار کی غلام گردشوں میں اعلی کرسی پر ان کو بٹھانا ضروری ہوگیا ہے، ان کے سیاسی مشوروں کے بغیر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو فیصلے کرنے میں دشواریاں ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں جماعت السلامی جو اسی کے عشرے میں افغانستان ایپی سوڈ کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر تھا لیکن 15 اگست کو طالبان کے افغانستان کے اقتدار پر قبضہ کے بعد جماعت اسلامی سکڑی جا چکی ہے، پاکستان میں بھی جماعت اسلامی کا وہ طنطنہ نہیں بول رہا ہے، جس کا پاکستانی سیاست ایک عرصہ سے عادی ہے، جماعت اسلامی کی قیادت جے یو آئی کے اس ابھار کو کسی صورت ہضم نہیں کر سکتی، اس لئے اس کو ایک فعال کردار اور رہنما کی ضرورت تھی، جسے ہدایت الرحمان بلوچ کی صورت میں انسٹال کر دیا گیا ہے۔

بلوچوں کا ایک اور سنجیدہ حلقہ اسے ایک سراب کے طور پر دیکھ رہا ہے، اس کا خیال ہے کہ یہ بلوچ قومی سیاسی جدوجہد کو ایک نئی سمت میں ورغلانے کی کوشش ہے، ساتھ ہی ساتھ وہ اس ساری صورتحال کی ذمہ داری بلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی نا اہلی، نالائقی پر عائد کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ بلوچ قوم پرستی کی پارلیمان کی سیاست نے بلوچوں کی مزاحمت کو بالکل کمزور کرکے رکھ دیا۔ وہ خود بھی کچھ نہیں کر پاتے، وہ جرات مند نہیں اور اب تو پارلیمانی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی بلوچ سیاسی جماعتوں کی قیادت بالکل ان پڑھ اور انگوٹھا چھاپ ہے۔ ہدایت الرحمن بلوچ کا ابھرتا، بلوچ پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ناکامی کا واضح دلیل ہے۔ لیکن کیا ہدایت الرحمن بلوچ کی اس ابھار کو صرف ایک تناظر میں دیکھنا ضروری ہے، کیا اس ابھار کے مختلف ڈائمنشنز نہیں ہو سکتے۔

مثال کے طور پر اگر ایک سردار اپنی سرداریت کے باوجود بلوچ قومی شناخت اور بلوچ قومی تہذیب کی بقاء کی بلوچ قومی جدوجہد میں شامل ہو سکتا ہے، اگر ہو سکتا ہے تو ایسی صورت میں بھلا کس طرح ایک عالم دین، مذھبی جماعت کے رہنماء کو ھم رد کر سکتے ہیں، اگر وہ بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ کے احترام کی مانگ کر تا ہے، وہ بلوچوں کو اپنی ہی سر زمین میں اقلیت ہونے سے بچاؤ کا مطالبہ کرتا ہے، وہ گوادر کو بلوچوں کا قومی اثاثہ قرار دیتے ہیں، اور وہ بلوچ قومی شناخت اور تہذیب کی بقاء کی جنگ لڑنا جانتے ہیں، تو ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کو روکیں، اگر ہم کسی سردار کو بلوچ قومی جدوجہد کا سرخیل مانتے ہیں، تو کیا ہم کل کو کسی عالم دین کو بلوچ قومی جدوجہد کا سرخیل کیونکر نہیں مان سکتے۔

اگر جماعت اسلامی کے فیکٹر کا تعلق ہے، تو دیکھا جائے ابھی تک جماعت اسلامی کی جانب سے ہدایت الرحمن بلوچ کی اس جدوجہد پر خاموشی ہے، نہ کہ مخالفت ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کی حمایت کی جا رہی ہے، ورنہ ہمارے ایک دوست کے مشورہ میں جماعت اسلامی سے کہا گیا کہ وہ اس مشورے کو منت سمجھیں اور ہدایت الرحمن بلوچ کے حق میں پاکستان کا سطح پر ریلیوں کا اہتمام کریں۔

لیکن ان تمام تجزیوں سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہدایت الرحمن بلوچ ایک پڑھی لکھی شخصیت ہیں اور باقاعدہ طور پر ان کی سیاسی تربیت ہو چکی ہے، قوم پرستوں کے مقابلے میں جن کے ہاں آج کل سیاسی تربیت، تنقید اور سوال کا کوئی معاملہ نہیں ہے، کسی ورکر میں جرات نہیں کہ وہ اپنی جماعت کے قائد کے کسی بھی فیصلے اور پالیسی کی مخالفت کر سکے یا اس سے پوچھ سکے۔
دوسری جانب ہدایت الرحمن کی تربیت ایک ایسی جماعت میں ہو چکی ہے جس کی تنظیم سازی مکمل طور پر بالشویک پارٹی کی طرح ہے اور جماعت اسلامی مذھبی جماعتوں کے مقابلے میں پڑھے لکھے لکھاریوں اور دانش وروں کی جماعت ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہدایت الرحمان خود بھی ایک نڈر شخص ہیں۔ تیسری وجہ ان کے ڈائیلاگ کے معاملے میں ان کا کمال نظر آتا ہے۔
ہدایت الرحمن بلوچ کے ابھرنے اور ان کی قومی افق کی سیاست پر ایک نئے رہنما کے ابھار کے پیچھے آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ گوادر کھڑا ہے۔ بحر بلوچ کی پانیاں کھڑی ہیں، بلوچستان کی اسٹریجک پوزیشن کھڑی ہے، اس طرح اب وہ جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین سے بھی اونچی حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔

کیا ہم ہدایت الرحمن کے ماضی قریب کی جدوجہد، جبری گمشدگیوں کے خلاف ان کے سخت موقف سے آگاہ نہیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا کا چلن نہیں تھا۔ میری ان سے آٹھ نو سال سے ملاقاتیں ہیں، ان کی زبانی بہت کچھ سن چکا ہوں، اس لئے یہ کوئی اچانک، کابل و طالبان والا مسئلہ نہیں ہے۔

کیا اس امر سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک عام آدمی کی طرح اس گھٹن اور روزانہ کی عزت نفس کی پامالی کے شکار اپنے والوں میں سے ہے۔ کیا اس گھٹن نے ان کے اپنے قومی لوگوں کے ساتھ تذلیل نے ان کو اس مقام تک نہیں پہنچایا ہے؟ کیا آپ ان کے اس بیباکانہ اور بلوچ قوم کی آواز بننے کے پس منظر میں مولانا عبدالحق بلوچ کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ جنکا سبھی بلوچ سیاسی حلقوں میں احترام موجود تھا۔ کم گو، مگر انتہائی کردار کے مالک اور مکمل طور پر سادگی کے ساتھ ایک روایتی بلوچ شخصیت جو کم گو ضرور تھے، کم بصیرت نہیں تھے۔

انہوں نے 2002ء میں ایک بیان دیا تھا اور پریس کلب کوئٹہ میں مرکزی امیر جماعت اسلامی کی موجودگی میں اپنے اس بیان پر قائم رہے تھے، کہ اگر گوادر میں مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیلی کی کوششیں کیں تو وہ مسلح جدوجہد پر مجبور ہونگے۔ ہم مولانا عبدالحق بلوچ اور شہید مولانا عبدالکبیر قمبرانی کو بلوچ قومی سیاسی دھارے میں نہ لاکر سنگین غلطیاں کیں۔

ان سے قبل بھی ہندوستان کی تقسیم، اور پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے الحاق کے مسئلہ پر کونسا بلوچ سیاسی کارکن مولانا عرض محمد اور مولانا محمد عمر کے قومی موقف کو بھول سکتا ہے، اگر عرض محمد اور محمد عمر مولانا ہوتے ہوئے بلوچ قومی تاریخ کے سرکردہ ہیرو بن سکتے ہیں، تو مولانا عبدالحق بلوچ، مولانا عبدالکبیر قمبرانی شہید اور اب اس دور میں ہدایت الرحمن بلو چ اور عبدالحق ہاشمی کو کیسے بلوچ قومی سیاست سے نکال سکتے ہیں۔

ہدایت الرحمن بلوچ جس تیزی کے ساتھ اسٹیٹس کو کو چیلنج کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کی للکارتی آواز بلند ہو رہی ہے، لگتا ہے کہ اس کے پاس وقت بہت کم ہے، یا وہ بہت زیادہ بولنا چاہتا ہے، اس کی رفتار غیر معمولی طور پر تیز ہے۔

بلوچوں کا یہ ابھرتا ہوا لیڈر مستقبل میں کس نام سے جانا جائے گا، اس کا تعلق ان کی قومی سیاسی جدوجہد اور ان کو مارے جانے اور شہید ہونے کے اظہار سے زیادہ خود سے تعلق ہے۔

ان کی قومی جدوجہد، یا ان کو نقصان پہنچانے کی صورت میں وہ بلوچ قومی تاریخ میں امر بن جائیں گے، یعنی دونوں صورتوں میں لیڈر کی حیثیت سے قومی جدوجہد کو بڑھانے میں بھی وہ صف اول کے بلوچ سیاسی راہنما شمار ہونگے، وہ مارے جانے سے مریں گے نہیں، زندہ ہونگے، اور بلوچ قومی جدوجہد کو ایک تیسرے، طویل اور دو رس اثرات کے ساتھ ایندھن فراہم کرتے رہیں گے۔ ان کی یہ دونوں صورتیں بلوچ سماج کو بہت طاقت کے ساتھ ایک انہونی سیاسی تبدیلی کی طرف لے جائیں گے۔

لیکن اگر ہدایت الرحمن بلوچ نے خود کو خود سے مار دیا۔ تو ایسی صورت میں فریق اول کے تجزیے درست ہونگے، خود سے خود کو مارنے کے اثرات بھی گہرے، شدید اور منفی ہونگے۔ اگر ہدایت الرحمن بلوچ خود اپنے آپ کو سیاسی طور پر نہیں مارتے، تب فریق دوم کے تجزیے درست ثابت ہونگے، ان سے متعلق تمام تجزیوں کے درست ہونے کا تعلق ان کی اپنی سیاسی ثابت قدمی سے وابستہ ہے۔

اگر ہدایت الرحمن بلوچ ثابت قدم رہ کر فہم و فراصت اور سیاسی شعور رکھنے والے ہم خیال جرات مند دوستوں کے مشوروں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں، تو ایسی صورت میں بلوچ قومی سیاسی جدوجہد میں قیادت کا بحران ختم ہو سکتا ہے، بلوچ قوم کے تشخص، تہذیب کے ساتھ جڑ کر جرات سے، بہادری سے ثابت قدمی سے میدان میں رہیں گے، تو بلوچ ان سے پیار کریں گے۔ ان پر محبتوں کے پھول نچھاور کرتے رہیں گے، شاید بلوچستان کو ایک نیا سیاسی راستہ اور ایک قائد مل جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں

SHARE
Previous articleبھائی کے جبری گمشدگی کے باعث والدین شدید کرب میں مبتلا ہیں – ظہور احمد بگٹی
Next articleٹی ایل پی کا مظاہرہ، مزید تین پولیس اہلکار ہلاک، پنجاب میں رینجرز تعینات
منظور بلوچ
بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے بینچہ سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ اس وقت بلوچستان یونیوسٹی میں براہوئی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں۔ آپ نے براہوئی زبان میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، اسکے علاوہ آپ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ایل ایل بی بھی کرچکے ہیں۔ آپکے براہوئی زبان میں شاعری کے تین کتابیں، براہوئی زبان پڑھنے والے طلباء کیلئے تین کتابیں اور براہوئی زبان پر ایک تنقیدی کتابچہ شائع ہوچکا ہے۔ منظور بلوچ بطور اسکرپٹ رائٹر، میزبان اور پروڈیوسر ریڈیو اور ٹی وی سے منسلک رہ چکے ہیں۔ آپ ایک کالم نویس بھی ہیں۔ آپ بطور صحافی روزنامہ مشرق، روزنامہ رہبر، روزنامہ انتخاب، روزنامہ آزادی، روزنامہ آساپ، روزنامہ ایکسپریس نیوز میں بھی کام کرچکے ہیں اور آپ ہفتہ وار سالار کوئٹہ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ دی بلوچستان پوسٹ میں بلوچستان کے سیاسی اور سماجی حالات پر باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔