آزاد قیدی – دیدگ بلوچ

492

آزاد قیدی

تحریر: دیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں جب سے انسان کے وجود کا ظہور ہوا ہے، تب سے وہ سطح زمین سے لیکر زیرِ زمین تک آزادی کا متلاشی رہا۔ وہ چاہتا ہے کہ آزاد ہوجاوں، مکمل طور پر اپنے اس آزادی کی خواہش کو پائے تکمیل تک پہنچاؤں۔ اس کیلئے انسان نے بہت سی جنگیں کیں، لڑتا رہا مرتا رہا۔ اور ہمیشہ اسی جدوجہد میں سرگرمِ عمل رہا کہ آزادی حاصل کرسکے۔ سکھ کا سانس لے مگر وہ اپنے اس مقصد میں ابھی تک کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر صاحبِ اختیار کے ہاں آزادی کے الگ الگ معانی ہوتے ہوں گے۔ اسی طرح مختلف معاشروں میں لفظ “آزادی” کے لیے گناہ جیسے نفرت انگیز الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ آزادی سے دور ہوتے گئے، ڈرتے رہے کہ شاید آزادی ایک ایسے بلا کا نام ہے جو ہمیں ہڑپ لے گا، برباد کرے گا، مٹادے گا۔ کیونکہ ان کے ہاں آزادی سے مراد علیحدگی، دوری، بکھر جانا، ٹکڑے ٹکڑے ہونا، کسی بات پہ سمجھوتا نہ کرنا ہے لیکن شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں انسان کو یکجا کرنے والی سب سے بڑی طاقت “آزادی” ہی تو ہے۔

اسی کے ساتھ جس انسان کے ذہن میں لفظ آزادی پرورش پا رہا ہے وہ سمجھ لیں کہ زمانے کا سب سے بڑا جرم کررہا ہے اور وہ ہمیشہ کیلئے اس سماج سے باغی ہوگیا ہے۔ یہاں ہمارے ذہنوں کو اس قدر مفلوج کیا گیا ہے کہ اب ہم اس لفظ یعنی (آزادی) کا لکھنا اور بولنا تو دور سوچنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزادی اتنی ہی خطرناک چیز ہے کہ جس سے اعلیٰ طبقے کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں؟ یا یہ اتنا خوبصورت چیز ہے جس کےلیے ہر ذی شعور اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوجاتا ہے؟

ذہن لوٹ کے اسی جملے پہ جاتی ہے کہ اتنے خوبصورت چیز “آزادی” کو کیوں اتنا بڑا سماجی جرم قرار دیا جاتا ہے حالانکہ جو اس کی مخالفت کررہا ہے وہ خود بھی آزادی کا منتظر ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان کے ہاں (جو آزادی سے نفرت کرتے ہیں) کے لیے آزادی کے اپنے معانی ہیں اور آزادی کے لیے جان دینے والوں کے نزدیک اپنے؟

سماج کے چند لوگ جو اسکے مخالف ہیں اور باقی جو آزادی کے حق میں ہیں انکا فرق واضح نہیں ہوپارہا جس کی وجہ سے ہر بار انسانی آزادی کی جدوجہد ناکام ہوجاتی ہے؟ تاہم اس کا جواب وقت ہی دے سکے گا کہ کون راہ راست پہ تھا اور کون بھٹکا ہوا؟

لیکن ہمارے موضوع میں جس آزادی کی بات ہو رہی ہے وہ ہے انسانوں کی آزادی، انسانیت کی آزادی، انصاف کی آزادی، زندہ رہنے کی آزادی، قوموں کی آزادی، حقوق کی آزادی، بولنے کی آزادی، لکھنے پڑھنے کی آزادی، سننے اور سنانے کی آزادی، کچھ کرنے کی آزادی، کچھ کرکے دکھانے کی آزادی، دولت کمانے کی آزادی، بھوک مٹانے کی آزدی، لباس کی آزادی، رہن سہن کی آزادی، شاعری کی آزادی، فن اور فنکار کی آزادی، گھومنے پھرنے کی آزادی، رنگ و نسل سے آزادی، عشق کرنے کی آزادی، دل بہلانے کی آزادی، خیالات کی آزادی، تصورات کی آزادی، خوابوں کی آزادی، روایات سے آزادی، خوف سے آزادی، محبت بانٹنے کی آزادی اور دنیا کے سب سے بڑی نعمت اظہارے پیار کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن افسوس انسانوں کا ایک طبقہ شروع دن سے ہی انہی چیزوں کے آزادی کی جدوجہد کرتا آرہا ہے مگر اپنے لاپرواہی اور ہٹ دھرمی کی وجہ نہ آج تک خود آزاد ہوسکا ہے اور نہ روئے زمین پر بسنے والے کسی دوسرے جاندار کی آزادی کو یقینی بنا سکا بلکہ وہ تو دوسروں کی آزادی کو ہمیشہ کچلتا رہا۔ اسی امید کے ساتھ کہ وہ خود کو آزاد کرے گا مگر ابھی تک نہیں ہوسکا تاہم میرے خیال سے اس سوچ میں مزید پختگی آرہی ہے جس سے غلامی بڑھ رہی ہے۔ اس دنیا میں کوئی انسان کبھی آزاد ہو ہی نہ سکا کیونکہ افلاطون کے مطابق انسان کو پیدا ہوتے ہی سماج کی زنجیریں جکڑ لیتی ہیں اور پھر ہمیشہ اس جال میں پھنسا رہتا ہے۔ اس جال کی ڈوریوں کو توڑنے کیلے حتیٰ الوسع کوشش کرتا ہے مگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ انسان کو اس سیارے پر انسانوں کی آزادی کے ساتھ ساتھ ہر اس جاندار کی آزادی کو یقینی بنانا ہے جو اسی انسان کی وجہ سے ابھی تک بے وجہ قید میں ہے۔

کہنے کو تو ہر آدمی کہتا ہے کہ میں تو آزاد ہوں مجھے کوئی پابند نہیں کرسکتا مگر وہ شاید بھول چکا ہوتا ہے کہ اس کے لاشعور میں اس غلامی اور قید کی زنجیریں پہلے سے قلعہ ذن ہوتے ہیں اس لیے اس کے سامنے ان زنجیروں کی کوئی اہمیت نہیں اور ان کو ہمیشہ سے اپنے آزادی تصور کرتا آرہا ہے اور اسی خوش فہمی کا شکار رہا کہ میں تو “آزاد” ہوں لیکن وہ حقیقی معنوں میں اپنے کئی ہزار سالہ سماجی زندگی گزارنے کے بعد بھی اس آزادی کو حاصل نہیں کر پا رہا اور ہمیشہ سے ایک “آزاد قیدی” کی زندگی بسر کرتا آرہا ہے۔ میں تو انسان کی اس غلط فہمی والی آزادی کو جیل میں بند اُس “عمر قید” کے قیدی کی زندگی کے ماند سمجھتا ہوں جو کہ آزاد تو ہے لیکن اسکی آزادی صرف اور صرف جیل خانہ کی دیواروں کے اندر تک ہی محدود ہوتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ میں ایک “آزاد قیدی” ہوں اور جیل میں موجود باقی قیدیوں کی نسبت میری کچھ عزت باقی ہے “بس یہی میرے لیے کافی ہے”۔ بس یہی میرے لیے کافی ہے۔ ‘آزاد قیدی’ کے آخری الفاظ!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں