افغانستان کی صورتحال: یورپ میں دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز

150

یورپی یونین نے افغانستان سے افراتفری میں فوجی انخلاء کے مضمرات پرتبادلہ خیال کیا ہے۔ جرمنی کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے کہ بروقت ضرورت کہیں بھی فوراً فوج تعینات کی جا سکے۔

افغانستان میں طالبان نے جس برق رفتاری سے قبضہ کیا اس نے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ جس کے بعد یورپی یونین میں اس بات پر غور وخوض جاری ہے کہ اس پوری صورت حال سے کیا کچھ سبق حاصل ہوا۔ اسی دوران جرمنی نے تقریباً ایک دہائی پرانی اس تجویزکو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جس میں یورپی یونین کی اپنی ایک ریپیڈ ایکشن فورس بنانے کی بات کہی گئی تھی۔

سن 2007 میں ایک ایسا نظم کیا گیا تھا جس کے تحت 1500 فوجیوں کے دستے کو کہیں بھی فوراً تعینات کرنے کے لیے روانہ کیا جا سکتا تھا۔ تاہم فنڈنگ اور فورس کو تعینات کرنے کے معاملے پر اختلافات کی وجہ سے یہ تجویز سرد خانے میں چلی گئی۔ لیکن افغانستان سے امریکی فورسز کی واپسی کے فیصلے کے بعد ریپڈ ایکشن فورس کا یہ موضوع ایک بار پھر یورپی یونین میں گفتگو کا موضوع بن گیا ہے۔ کیونکہ یورپی یونین صرف اپنے دم خم پر اپنے لوگوں کو بچا کر نکال لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جہاں افغانستان جیسی سنگین صورت حال ہو۔

یورپی یونین میں خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نے امید ظاہر کی کہ اکتوبر نومبر تک اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا،”بعض اوقات ایسے واقعات ہوتے ہیں جو تاریخ کو نیا موڑ دیتی ہیں، جو کچھ نیا شروع کرتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔

بورل نے یورپی یونین سے درخواست کی کہ پانچ ہزار فورسز پر مشتمل ایک ایسا دستہ تیار کیا جائے جسے فوراً کہیں بھی تعینات کیا جاسکے، تاکہ امریکا پر انحصار کم ہو۔ انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن مسلسل تیسرے ایسے امریکی صدر ہیں جنہوں نے یورپ کو متنبہ کیا ہے کہ ان کا ملک یورپ کے قریبی مقامات میں جاری غیرملکی دخل اندازی سے اپنا ہاتھ کھینچ رہا ہے۔