تین سالوں کا سفر سربلند عرف عمر جان کے ساتھ ۔ زورین اسلم بلوچ

1977

تین سالوں کا سفر سربلند عرف عمر جان کے ساتھ ۔

تحریر:زورین اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا، مجھ سے ملا، دوستی ہوئی، وہ بہت خوبصورت دن تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد عمر جان نے مجھ سے کہا کہ “سنگت مجھے استاد اسلم سے ملنا ہے۔” میں نے بھی کہا کیوں نہیں۔ تین دن کے بعد موقع ملتے ہی میں نے استاد اسلم سے کہا کہ ایک سنگت آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ استاد نے کہا کہ ضرور بلاؤ سنگت کو۔ میں بھی خوش ہوگیا کہ اتنی بڑی ہستی نے مجھے کہا کے ملتا ہوں آپ کے سنگت سے تو میں بھاگ بھاگ کر عمر جان کے پاس گیا اور کہا آپ کو استاد نے بلایا ہے ملنے کے لیے، تو وہ بھی خوشی سے مسکرا کر اٹھا اور میرے ساتھ روانہ ہوا۔

ہم جنرل اسلم کے پاس پہنچے تو عمر جان اور استاد کی ملاقات شروع ہوگئی، تنظیمی رازوں کے مطابق ان دونوں کی گفتگو شروع ہوئی، تین گھنٹے کے بعد سنگت بابر مجید کو استاد اسلم نے بلایا اور کہا کہ آج سے یہ سنگت ہمارے ساتھ رہیگا اور ان کا خیال رکھنا، پھر عمر جان نے جنرل سے الوداع کیا اور چلا گیا۔

دوسرے دن 3:30 بجے کا وقت تھا کہ جنرل اسلم اور ساتھیوں پر دشمن کا حملہ ہوا اور جنرل اسلم ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جسمانی طور پر جدا ہوگئے۔

دو دن بعد میں نے عمر جان کو ایک ذمہ دار سنگت سے ملایا اور دوست کو بولا کہ استاد نے اس کا خیال رکھنے کو بولا تھا اور یہ بھی بولا تھا کہ آج کے بعد یہ ہمارے ساتھ رہیگا۔

یوں چلتے چلتے عمر جان نے بھی اپنا فیصلہ کر لیا تھا اور عمر جان اپنے فیصلے پر ڈٹ کے کھڑا تھا اور اسکے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی اور سنگتوں سے ایسے ملتا، جیسے جب بارش کے وقت زمین خوش ہوتی ہے، عمر جان کے چہرے پر بھی وہی خوشی چھلک رہی تھی۔

سنگت نے ہمارے ساتھ تین سال گزارے، سنگت کی ہر بات یاد آتی ہے، کبھی کبھی میں سنگت کو بہت یاد کرتا ہوں اور دل بہلتا ہے، عمر جان کی ہنسی اور خوش مزاجی مجھے مایوس نہیں ہونے دیتی، سنگت نے ہمیں ہمت حوصلہ بخشا اور ہر بلوچ نوجوانوں کے لیے پیغام چھوڑا کہ میں نے ریحان کا بندوق سنبھال لیا اور آنے والے نوجوان میرے بندوق کو سنبھال لیں۔

کچھ مہینے کے لیے عمر جان سے دوری ہوئی وہ اپنے مشن کی تیاری کر رہا تھا ہمیں تنظیمی رازداری کے مطابق بالکل علم نہیں تھا کہ عمر جان نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک دن مجھے میسج آیا، میں نے میسج پڑھا تو وہ میسج میرے پیارے سنگت عمر جان کا تھا۔ میں نے عمر جان کو ملنے کا بولا، میں بھی ملنے کے لیے کچھ بہانہ ڈھونڈ رہا تھا تو وہ بولا میں آپ سے ابھی نہیں مل سکتا میں ملنے کے لیے ترس رہا تھا۔ اس نے کہا کہ ملونگا آپ سے، تھوڑا کاموں میں مصروف ہوں اور رخصت اف اوارن بولنے کے بعد الوداع کیا۔ میں نے بھی کہا انشاللہ سنگت اوارن۔

مجھے نہیں پتہ تھا کہ اسی دن سے عمر جان کا نمبر وغیرہ سب بند ہونگے۔ کچھ دنوں سے بے چینی سی محسوس ہورہی تھی، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بے چینی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ بس میں اپنا موبائل دیکھ رہا تھا تو اچانک میں نے عمر جان کا ٹوئٹ دیکھا۔ میں کچھ دیر تک خاموش رہا اور حیران رہ گیا۔

رخصت اف اوارن سنگت، سب کا راستہ یہی ہے۔ میں نے تو ریحان جان کا بندوق سنبھال لیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا اور اب مجھے یقین ہے کہ میرے بندوق کو میرے آنے والے نوجوان زنگ نہیں لگنے دینگے۔

سنگت عمر جان کے لیے میرے قلم اور مجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ سنگت کے قربانی اور شہادت پر لکھ سکوں۔ ابھی بھی میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں مجھے معاف کرنا سنگت میں آپکے لیے کچھ نہیں لکھ سکا آپ زندہ ہو اور ہمیشہ زندہ رہوگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں