مذاکرات ہونگے نہیں ہورہے ہیں | آسگال – سفر خان بلوچ

451

مذاکرات ہونگے نہیں ہورہے ہیں

تحریر: سفر خان بلوچ
(آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

موجودہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کہیں بھی کچھ بول سکتا ہے، کبھی جرمنی کے سرحد کو جاپان سے ملاتا ہے کبھی تربت کو ریگستانی علاقہ کہتا ہے، گذشتہ دنوں دورہ گوادر کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے بیان کو شاید کئی لوگ شروع شروع میں اسی نوعیت کا بیان سمجھ رہے تھے مگر حقیقت کچھ اور ہے۔

وزیر اعظم پاکستان کے صرف چند ہی الفاظ بہ مشکل پانچ سیکنڈ کے ہونگے مگر اس بیان کے بعد پوری دنیا صرف اسی پانچ سیکنڈ پہ تجزیہ کرنے لگا جبکہ یہ بات کہنا کہ “میں سوچ رہا ہوں بات کرنے کے لئے” یہ مکمل جھوٹ ہے کیونکہ بات تو کب کی شروع ہوچکی ہے اور کئی مشق مکمل کرچکے ہیں اور اس کے اثرات بھی ہمیں اس بیان سے پہلے اور بعد میں دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ کس طرح تیزی کے ساتھ کمیٹیاں وغیرہ تشکیل دے کر اس کام کو بظاہر تیز کرنے کی کوشش کیا جارہا ہے مگر جو یہ کچھ نمونے آگے لائے جارہے ہیں ان لوگوں کا کام کب کا مکمل ہوچکا ہے ان لوگوں کا کام اب کسی کار گاڑی کے سامنے رکھے ہوئے کھلونا نما بندر سے کچھ زیادہ نہیں ہے جو ہر وقت بغیر مقصد کے سر ہلاتا رہتا ہے۔

عمران خان نے جب بیان دیا تو ڈاکٹر اللہ نذر، بشیر زیب بلوچ، گلزار امام بلوچ اور کئی رہنماؤں نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ہم صرف اور صرف آزادی کے نقطہ کے سوا کسی اور نقطہ پہ کسی سے بھی بات نہیں کرینگے۔ مگر دوسری جانب کئی لوگوں کی جانب سے، خاموشی جو نا چاہتے ہوئے بھی انسان کو شک میں مبتلا کردیتی ہے۔

اس وقت یہ بات بہت تیزی سے گردش کررہی ہے کہ براہمدگ بگٹی سے مذاکرات ہورہے ہیں اور اس سے پہلے بھی ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں اس نوعیت کی باتیں ہوئی ہیں یہ الزام لگ چکا ہے کہ براہمدگ بگٹی مزاکرات کرنے پر آمادہ ہوا تھا اور مزاکرات کئی حد تک کامیاب بھی ہوئے تھے اور پھر وہ اسٹیبلیشمنٹ کی وجہ سے آگے نہیں گئے۔ بقول ڈاکٹر مالک براہمدگ کے مطالبات اس طرح کے تھے جو صوبائی حکومت بھی اگر چاہتا تو پورا کرلیتا۔ ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار بھی ہوتے اگر براہمدگ ان الزامات پہ خاموشی نہ بھرتا کیونکہ یہ چھوٹے الزامات نہیں ہیں۔

کئی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اُس وقت مذاکرات کے سامنے رکاوٹ موجودہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی لوگ تھے جنہیں ناچاہتے ہوئے بھی پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ ناخوش نہیں کرنا چاہتا تھا اور انہیں باپ جیسا پارٹی بھی بعد میں بنانا تھا اور ان کے نزدیک یہ مذاکرات والی بات بھی بعد میں ہونا تھا اور اُس وقت ان کے نزدیک باپ والے فارمولے کی زیادہ ضرورت تھا اور اس سے کئی چیزوں کو پورا کرنے کی بھی ضرورت تھی۔

کیا اس وقت مزاکرات چل رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ہمیں کئی ایسے شواہد مل سکتے ہیں کہ جواب آتا ہے ہاں مذاکرات ہورہے ہیں۔

غالباً آج سے سات ماہ پہلے میں نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پہ ایک ٹویٹ کی تھی کہ “اندرون خانہ مزاکرات چل رہے ہیں”۔ یہ مزاکرات آج یا دو تین مہینے سے نہیں بلکہ یہ پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوا کہ چل رہے ہیں اس دوران گہرام بگٹی بھی دو مرتبہ یورپ یاترا کرچکا ہے جبکہ باوثوق ذرائع کے مطابق اس دوران یہ بات بھی طے ہوچکی ہے اُس جانب ڈیرہ بگٹی اور گردنواح میں فوجی چوکیوں اور کیمپوں کی تعداد کو کم کیا جائیگا اور اُس جانب غیراعلانیہ جنگ بندی اور کسی قسم کی ایکٹیویز نہیں کی جائینگی جس سے ریاست پاکستان کو نقصان پہنچے اس پہ کسی حد تک عمل ہوچکا ہے۔ ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ڈیرہ بگٹی اور گردنواح میں صرف رواں سال مارچ کے مہینے تک بیس سے زیادہ فوجی چوکیاں اور کیمپوں کو خالی کیا جاچکا ہے اور اس کے بعد بھی اور دوسری جانب مسلح کاروائیوں نے بھی مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ایک سال سے مذکورہ علاقے میں ایک گولی کی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ میں اس بات کی نشاندہی مارچ کے مہینے میں ایک ٹویٹ میں کرچکا ہوں۔

مذاکرات کا ڈرامہ جو اس وقت رچایا جارہا ہے دراصل یہ مکمل اسکرپٹڈ ہے اور اس فلم کی شوٹنگ پہلے سے مکمل ہوچکی ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی اس طرح کی باتیں کئی بار ہوچکی ہیں مگر میڈیا کا رویہ اس وقت کیا ہوا ہے جب کہ اس بار صرف پانچ سیکنڈ کے گفتگو پہ پورے میڈیا پہ یہی زیر بحث ہے حتیٰ کہ راتوں رات پیمرا اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتی ہے اس سے پہلے کسی قسم کی آزادی پسند کو پاکستانی ٹی وی چینل پہ گفتگو کرنے کی آزادی نہیں ہوتی تھی مگر اب اس طرح نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ ایک دو دن میں کوئی آکر ان ہی ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز کا حصہ بنے کیونکہ کئی صحافی اپنے ذرائع سے ان سے رابطہ میں ہیں اور خان سلیمان داؤد پاکستانی ٹی وی اینکر جاوید چوہدری سے اس بات کا اظہار بھی کرچکے ہیں کہ اگر ملٹری اسٹیبلیشمنٹ چاہے ہم مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جو موجودہ مذاکرات کی بات ہے تو پاکستان اس بات کی نشاندہی بھی کرچکا ہے کہ ہم بات کس سے کرینگے۔ گوادر دورہ کے بعد جب کابینہ اجلاس ہوا تو وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ بات اس سے ہوگی جو انڈیا فنڈڈ نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو ان سے بات کررہے ہیں وہ ناراض بلوچ اور جو نہیں کررہے ہیں وہ غیر ملکی ایجنٹ، ویسے پاکستان میں بلوچوں کے لئے کئی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں کبھی یہی ناراض بلوچ ہوتے ہیں، کبھی یہی دہشتگرد اور غیر ملکی فنڈڈ ہوتے ہیں جبکہ اب تک ناراض بلوچ کون ہیں یہ فیصلہ ہوا بھی نہیں۔ اختر مینگل سمیت کئی پارلیمانی لیڈر بھی پتہ نہیں ان کے نزدیک ناراض بلوچ ہیں یا نہیں۔

جو باتیں گردش کررہے ہیں کہ اگر اس طرح کے مزاکرات ہوئے بھی کیا بلوچ تحریک کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں؟ یقیناً کسی قدر مشکلات ضرور ہونگے ایک تو نفسیاتی اثرات لوگوں پہ منفی اثرات چھوڑ سکتی ہے اور پاکستانی فورسز بلوچستان میں آپریشنوں اور دیگر واقعات میں اضافہ کرسکتے ہیں، کئی لوگوں کے حوصلے بھی گرسکتے ہیں۔ موجودہ افغانستان کی صورتحال کو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک فوجی چوکی سرنڈر کرتا ہے تو اس کو دیکھتے ہی دوسرے بھی کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے لئے بلوچوں کو تیار رہنا چاہیے مگر یہ جنگ رکنے والا نہیں ہے۔ آج نوجوانوں کی اکثریت پاکستانی فریم ورک میں رہنے کو تیار ہی نہیں ہے مگر اس کے علاوہ بھی آنے والے دنوں میں کچھ مدت کے لئے کوئی بڑا علاقہ اس تحریک سے جدائی اختیار کرنے والا ہے مگر پورا بلوچستان نہیں صرف بلوچستان کا چھوٹا سا علاقہ جو جنگی محاذ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہ خاموش ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں گولیوں کی گھن گرج بلوچستان کی آزادی تک جاری رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں