ہاں میں دہشتگرد ہوں – سفرخان بلوچ

878

ہاں میں دہشتگرد ہوں

تحریر: سفرخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں دہشتگرد، خونخوار، مجھ میں انسان اور انسانیت کی کوئی قدر نہیں، میں جلاد ہوں مجھ میں شر اور بد کی کوئی تمیز موجود ہی نہیں ہے، اگر آپ کے نظروں میں، میں ایک کرائے کا قاتل ہوں تو قبول ہے، مگر آپ سن بھی لیں میں کون ہوں میری تعریف کیا ہے۔

میں اس ماں کی فرزند ہوں، جو اپنے ہاتھوں سے مجھے باردو بھری ٹرک میں بٹھا کر زمین اور قوم کی حفاظت کے لئے بھیج دیتا ہے اور میرے مشن کی کامیابی تک وہ دعا مانگتی رہتی ہے کہ میں کامیاب ہوجاؤں اگر آپ کے نظروں میں اس ماں کی ممتا دہشتگردی ہے، تو ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

میں اس ماں ک لخت جگرہوں، جو اپنے ہاتھوں سے مجھے سجاکر دلہا بناتا ہے اوردو ہفتے کے اندرمیں دشمن کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوجاتا ہوں، پھر وہی ماں یہی کہتی ہے میرے اور چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں انہیں بھی اسی زمین کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہوں اگر آپ اب بھی مجھے دہشتگرد کہتے ہیں،تو ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

شادی کے بعد دلہن کی ہاتھوں سے مہندی خشک نہیں ہوتی اور میں مارا جاتا ہوں اور وہی دلہن حاملہ بھی ہے اور اس کی کوکھ میں پلا بچہ پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوجاتی ہے، اگر اس بچے کا باپ دہشتگرد ہے، تو ہاں میں دہشتگرد۔

زمین اور قوم کی حفاظت کرتے ہوئے دو تین دنوں تک دشمن کے ساتھ آخری گولی تک لڑنے کے بعد جب میں مارا جاتا ہوں تو وہی دشمن اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے میری میت کو گاڑی کے پیچھے باندھ کر دو کلومیٹر تک گھسیٹتا ہے، اگر پھر بھی میں دہشتگر ہوں، تو ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

تپتی دھوپ اور شدید گرمی میں شاہد آپ اپنے کمرے میں اے سی پل کے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور ٹھیک اسی وقت میں کسی سنسان جگہ پہ بیٹھ کر اپنے قوم اور سرزمین کی حفاظت کے لئے کچھ سوچ رہاہوں، اگر آپ انسان دوست اور آپ میں انسانیت ہے اور مجھ میں نہیں اور میں دہشتگرد ہوں تو جی ہاں مجھے قبول ہے، میں دہشتگرد ہوں۔

شدید سردی کی یخ بستہ راتوں میں آپ اپنے کمرے میں ہیٹر کے سامنے دو کمبل لپیٹ کر گھوڑے بیچ کر سوجاتے ہو، ٹھیک اسی وقت میں ایک ہلکی سی تنک چادر لے کر ٹھرٹھراتی سردی میں رات گذارنے پہ مجبور ہوجاتا ہوں، اگر پھر بھی میں دہشتگرد ہوں، تو جی ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

شاید آپ دن دس بجے تک بے خوف سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور مجھے سورج نکلنے سے پہلے ہیلی کاپٹروں کی آوازیں گہری نیند سے جگا دیتی ہیں اور میں دوستوں کو کسی محفوظ جگہ پر منتقل کرنے کوشش میں لگا رہتا ہوں اور ٹھیک اسی وقت میں گولی لگنے سے زمین پرگر جاتا ہوں اور موت آنے تک میری خواہش ایک ہی ہوگی کہ میرے دوست صحیح سلامت کسی محفوظ جگہ تک پہنچ جائیں، اگر آپ کی نظر میں یہ دوستی دہشتگردوں کی ہے تو ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

میرے دوست مجھے رخصت کئے بغیر یہی کہتے ہیں، رخصت اف آواروں اور چلتے ہیں ٹھیک دو دن بعد خبر آپہنچتی ہے کہ وہ تو مارا گیا اگر آپ کے نظر میں یہ دہشتگردوں کی دوستی ہے تو ہاں میں دہشتگرد۔

دو دن تک پیدل چلتے چلتے پاؤں جواب دینے لگتے ہیں، پانی ختم ہوجاتے ہیں اور دو دنوں تک میں نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے اور ٹھیک اسی وقت آپ کسی کافی شاپ پہ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کرتے ہیں کہ میں اس فلاں کافی شاپ پر بیٹھا ہوں،، اگر آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ آپ قوم پرست اور انسانیت آپکا مذہب ہے اور میں جاہل دہشتگرد اور خونخوار ہوں تو مجھے قبول ہے، ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

آپ کے میٹرک کی امتحان شاہد کسی اور نے دی ہوئی ہے اور آپ شاید دو تین بار فیل بھی ہوئے ہیں مگر میں ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر، ایک وکیل اور ایک ایم فل کا گولڈ میڈلسٹ ہوں اور آپ زمین سے دور اور پہاڑ کی زندگی کو چھوڑ کر کوئی جگہ چلے گئے ہیں اور میں نے پہاڑوں کو اپنا مسکن بنالیا اگر پھر بھی آپ اپنے کو قوم پرست اور مجھے دہشتگرد کہتے ہو تو جی ہاں مجھے قبول ہے، ہاں میں ہوں دہشتگرد۔

دس دس سالوں تک جب مائیں بیٹیاں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہروں سے لے کر یو این اور دوسرے اداروں کو درخواست کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور مایوس ہوکر آخر خودکشی یا خودسوزی کی نیت کرتے ہیں، ٹھیک اسی وقت میری تصویر اسکے ذہن میں ایک امید بن جاتی ہے شاید میں اس کے لئے کچھ کرسکتا ہوں اور یہ اذیت ناک زندگی سے نکال کر ایک خوشحال زندگی انہیں دوں، جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اگر یہ امید آپ کی نظر میں دہشتگردی ہے، تو ہاں میں دہشتگرد۔

شاید آپ نے کچھ کتابیں بھی پڑھی ہوں اور آپکی انگلش اچھی ہو اور آپ اپنے آپ کو کسی خطے کا ماہر بھی سمجھتے ہوں اور میں شاہد ان تمام چیز کو نہیں جانتا ہوں، مگر مجھے زمین سے محبت ہے، محبت کی انتہا ہے اور اسی محبت کی وجہ سے میں زمین سے دور نہیں رہ سکتا چاہے موت آئے یا کوئی اور مصیبت مجھے رہنا یہیں ہے اور مرنا بھی یہیں ہے، آپ شاید اسی فلسفے پہ زندہ ہیں کہ جان ہے تو جہاں، یا آپ دو کشتیوں میں سواری کرنے کی عادی ہیں، ایک جانب آپ آسان راہ فراریت اختیار کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے سہولیات بھی پوری ہوں اور آپ کو ایک بلوچ جہدکار کے نام سے بھی جانا جائے، تو آپ کے نظر میں، میں ابھی بھی غلط ہوں آپ ایک سچے قوم پرست ہیں تو ہاں میں غلط ہوں۔ آپ مجھے دہشتگرد کہیں یا کچھ اور مجھے قبول ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہیں تاریخ میں آپ کے بارے میں یہی کہا جائیگا کہ آپ نے لوگوں کو آزادی اور جدوجہد کی سکین دی تھی اور جب جنگ نے شدت اختیار کیا تو آپ نے اپنے راستے کو الگ کرلیا، آپ نے لوگوں کو یہی کہا تھا کہ مزاحمت زندگی ہے اور جب مزاحمت کی باری آئی تو آپ نے انسانی حقوق اور انسانیت کے راگ کو اپنانا شروع کیا تھا۔

ایک وقت ایسا بھی تھا جب ڈاکٹر مالک نے یہی کہا تھا کہ بلوچ قوم ہمیں خون دے اور ہم انہیں آزادی دینگے اگر آج مالک نہیں ہے مگر مالک جیسی نفسیات آج بھی موجود ہیں، کل جو یہی کہتے تھکتے نہیں تھے، آزادی کا ڈھنگ گوریلہ جنگ، آج وہی مالک کا روپ اپنائے ہوئے ہیں، کل اگر مالک قوم خون دینے کی بات کرتا تھا آج مالک نما لوگ کل گوریلہ جنگ کی بات کرتے تھے، آج وہی انسانی حقوق اور پرامن طریقے سے بلوچ آزادی کی جنگ کوآگے لے جانے کی بات کرتے ہیں۔ اگر میں ان کے بارے میں یہی نا کہوں کہ اس طرح کے لوگ آسان راہ فراریت اختیار کرچکے ہیں تو کہا کہوں؟ اگر ان جیسے لوگ کہتے ہیں زمین کے محافظ دہشتگرد ہیں تو کہنے دیں مگر ان کے بارے میں بھی سچائی سورج کی روشنی کی عیاں ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔