یہ ہاتھ آخر کتنے یسوعوں کو صلیب دیں گے – محمد خان داؤد

136

یہ ہاتھ آخر کتنے یسوعوں کو صلیب دیں گے

 تحریر : محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ 

اس سے محبت کرنے والے کہتے ہیں اس کا کوئی قصور نہیں
اسے نفرت جیسا برتاؤ کرنے والے خوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کا کوئی نہ کوئی تو قصور ضرور ہے۔

وہ گناہ اور بے گناہی کے درمیان رہنے والا شخص کل سے لاپتہ ہے۔وہ کہاں ہے؟اسے کون لے گئے ہیں؟کہاں لے گئے ہیں؟اس سے کیا پوچھیں گے؟اس سے کب گھر کو جانے دیں گے؟وہ انہیں کیا معلومات دے سکتا ہے؟وہ ان کے کتنے کام کا بندہ ہے؟وہ دیش دروہی ہے یا دیش بھگت؟

یہ سب بعد کے سوال ہیں۔پر اس وقت اہم سوال یہ ہے جس پر سندھ بھی سراپا احتجاج بنا ہوا ہے کہ
”اس کا قصور کیا تھا؟“
جو وہ فرشتے آدھی رات کو اس گھر کی چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے اس گھر میں گھسے اور اس کے مختصر سے سامان کو ایسے تلاشہ جیسے قابض فوج دیش بھگتوں کے سامانوں کو تلاشتی ہے اور انہیں سوائے کچھ کتابوں اور کچھ لکھی تحریروں کے کچھ نہیں ملتا،سینگار کے گھر سے بھی انہیں کچھ نہیں ملا ہوگا
ہم اس وڈیو میں دیکھ سکتے ہیں جو وڈیو اس کچے گھر کی ہے جو گھر سینگار کا گھر ہے جس میں اس گھر کا پورا سامان بکھرا پڑا ہے،سب کتابیں شیلف سے نیچے گری ہوئی ہیں اور نہیں معلوم کہ وہ اس گھر سے کیا کچھ لے گئے؟اس گھر میں ایک سیا سی کارکن اور چند کتابوں کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔

تو کتابیں تو وہیں رہ گئی ہیں پر وہ اس سیا سی کارکن کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں جس کے لیے سندھ اورا س کے دوست سراپا احتجاج ہیں،سندھ اور اس کے دوست یہی سوال کر رہے ہیں کہ اس کا کیا قصور تھا؟

یہ شاید کوئی نہ بتاپائے وہ بھی نہیں جو اس کی ہی قمیض سے اس کے سر کو ڈھانپ کر اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ بھی نہیں جو اس کے دوست ہیں جو اب اس کے لیے فکر مند ہیں اور وہ سندھ بھی نہیں جو اس کے سپنوں میں رہتی تھی اور وہ بھی نہیں جو رات کے آخری پہروں میں گمشدگی کا شکار ہوا۔

اس بات کا جواب تو اس محبوبہ کے پاس بھی نہیں جو اپنے محبوب کی گمشدگی پر ہاتھوں میں سینگھار کی تصویر لیے اور کاندھوں پر اپنی بیٹی بٹھائے اپنے محبوب کی بازیابی کے لیے روڈوں پر ہے، پر اس سوال کا جواب تو اس ماں کے اس بھی نہیں جو کل اپنے کانپتے ہاتھوں میں مائیک لیے سندھی نما گلابی اردو میں کہہ رہی تھی کہ”مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے!“

جب اس سوال کو سندھ سے لیکر محبوبہ،ماں کے پاس بھی جواب نہیں کہ اس کا کیا قصور تھا جو آدھی رات کے گیدڑ آئے اور بندوق کے زور پر اسے اپنے ساتھ لے گئے تو بھلا کس سے پوچھیں کہ سینگھار کا کیا قصور تھا،پر وہ دشمن نما دوست تو کہہ رہے ہیں کہ اس کا کچھ نہ کچھ تو ضرور قصور تھا جو گم کیا گیا ہے۔

ہاں اس کا قصور تھا،وہی قصور جو اک دئیے کا قصور ہوتا ہے
جلنا،جلتے رہنا،اپنی سی کوشش کرنا اور اپنے آس پاس کے اندھیرے کو دفع کرنا۔

سینگھار کا بھی دئیے والا قصور تھا۔وہ جلتا تھا،جلتا ہی رہتا تھا،اپنی سی کوشش کرتا تھا اور اپنے آس پاس کے اندھیرے کو دور کرتا تھا۔وہ جو اس کے منھ پر قمیض کا نقاب لیے اپنے ساتھ لے گئے ہیں وہ بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ دئیے کی ماند نہ جلے یہ بُجھ جائے!
پر وہ کیوں بُجھے؟وہ جلے کیوں نہ!وہ اندھیرہ دور کیوں نہ کرے۔سیا ست میں بیگانگی کا اندھیرہ،معاشرے میں ذلالت کا اندھیرہ،اوچ نیچ کا اندھیرہ،سماج کے اندھے پن کا اندھیرہ،عورت پر تشدد کا اندھیرہ،بچوں کو خاص کر لڑکیوں کو اسکول نہ بھیجنے کا اندھیرہ!سماج میں برابری نہ ہونے کا اندھیرہ،وڈیرہ شاہی کا اندھیرہ،ووٹ کے غلط استعمال کا اندھیرہ،
اگر اندھیرے کو دور کرنا قصور ہے تو یہ قصور ہے کامریڈ سینگھار کو ضرور تھا
اور وہ دئیے کی ماند جل رہا تھا کہ اس سے دیس کا اندھیرہ دور ہو اتنا ہی دور ہو جتنی اس کی طاقت ہے پھر بھلے آس پاس ہی کا اندھیرہ دور ہو،پر ان ہاتھوں نے اس گم کر دیے جو کسی بھی دئیے کو جلنے نہیں دیتے وہ تاریکی کو پسند کرتے ہیں۔وہ جو زندگی کے دشمن ہیں،وہ جو روح کے دشمن ہیں،وہ جو نور کے دشمن ہیں،وہ جو خوشبو کے دشمن ہیں،وہ کو حیاتی کے دشمن ہیں،وہ جو اب سینگھار کے دشمن ہوئے ہیں،وہ کب چاہیں گے کہ اک دئیا ہی صحیح پر وہ تاریکی کو دور کرے،کامریڈ سینگھار اپنی سیا سی نور سے غیر سیا سی اندھیرے کو ہی تو دور کر رہا تھا،کچھ سرخ پرچم سے اور کچھ کتابوں سے!
اور اس کے پاس کیا تھا؟

اس کے پاس کچھ باتیں تھیں جو قلم بند ہو گئیں اور کچھ باتیں تھیں جو باتوں کے ذرئعے ہواؤں میں تحلیل ہو گئیں،وہ یسوع کا بھائی تھا اور یسوع کی مانند باتوں سے انسانوں کو دل بھلایا کرتا تھا،وہ باتیں جو شفا یاب تھیں،وہ باتیں جو مسیح کی ماند نور کی باتیں تھیں،وہ باتیں جو سچ کی راہ کی تھیں،وہ سچائی کا سوداگر تھا اس کے اس اگر کچھ تھا تو بس باتیں اور اگر اس کا کوئی قصور بھی ہے تو بس سچائی اور اس کے پاس کیا تھا؟

کامریڈ سینگھار بھی یسوع کا بھائی ہے کل یسوع کے گلے میں صلیب تھی اور مریم روڈوں پر تھی
آج سینگھار کے گلے میں صلیب ہے اور وہ مصلوب ہوا ہے اور ماں روڈوں پرہے
پر یہ ہاتھ آخر کتنے یسوعوں کو صلیب دیں گے
اور کتنی مریمیں ان یسوعوں کے پیچھے روڈوں پر دوڑتی رہیں گی؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں