میرا خواب، میرا پرچم (دوسرا حصہ) – محسن رند

478

میرا خواب، میرا پرچم

دوسرا حصہ

تحریر: محسن رند

دی بلوچستان پوسٹ

ہیلی کاپٹر کی تباہی دشمن کو ذہنی شکست دینے کے لئے ایک مضبوط عمل ثابت ہوا۔ جس پہاڑ کی چوٹی پر ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوگیا تھا اس کے قریب فوجی بھاگنے لگ گئے تھے جنہیں دیکھ کر شیہک نے مجھ سے کہا دودا آجاؤ دیکھو کیسے بھاگ رہے ہیں۔ میں بھی ہنس کر کہنے لگا اس فوج کی سب سے بڑی خوبی بھاگنے میں ہے یہاں میڈلز دلیری پر نہیں بھاگنے پر دیئے جاتے ہونگے، جو جنگ کے دوران جتنا بھاگ سکتا ہے اتنے ہی میڈلز اس کے سینے پر لٹکے ملتے ہیں۔ ان کی تاریخ اٹھائیں یہ کبھی بھی دلیری سے نہیں لڑے،کیونکہ یہ دلیر ہی نہیں۔

دوسرے اطراف میں ہلچل پیدا ہوگئی تھی اب وہ اندھا دھند فائرنگ کررہے تھے چوٹی کے تھوڑے نیچے ہم بڑے پتھر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

میں نے شیہک کو کہا میرا اسلحہ میرے پاس رکھ دیں۔ واپس اپنی جگہ سنبھالیں اس نے ایسا ہی کیا۔

اب دشمن پر 4 جگہوں سے حملوں نے انہیں یہ بات باور کرادی کہ یہ اب بھی ان پہاڑوں جیسے مظبوط ہیں جو آخری دم تک لڑیں گے۔

کچھ دیر اندھیرا ہونے کو تھا جو ہمارے لئے ایک نیک شگون عمل تھا کیونکہ اندھیرے میں ہم نکل سکتے تھے۔ پر تب ہی ایک اور ہیلی کاپٹر آگیا جس کی سرچ لائٹ ہم پر پڑنے کو تھی اس دفعہ انہوں نے ہمارے رینج تک آنے کی جرات نہ کی۔ تب شہیک کی رفتار بھی سست ہوگئی تھی میں جان گیا تھا وہ بھی جسم کے کسی حصے پر گولی کھا چکا ہے۔

ہیلی کاپٹر کے شیلنگ فائرنگ سے اسے دو اور گولیاں لگیں وہ وہیں گر گیا میں ایک ہاتھ اور پہر سے گولی لگنے کی ٹھیک سے چل نا سکتا تھا لیکن اس کی طرف جانے لگا کہ اسے محفوظ جگہ پر اپنے ساتھ بٹھا سکوں۔ وہ اٹھ نہ سکتا تھا میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی بہت مشکلوں بعد اسے اٹھا کر پتھروں کے حصار میں لے گیا۔

اب ہم دونوں شدید زخمی تھے میں صرف اتنا کرسکا کہ دشمن فوج کواپنے نزدیک نا آنے دوں، ہم لمحوں بعد ان کی طرف فائرنگ کرتے رہے۔ تب شیہک نے مجھ سے پوچھا دودا تمہیں کیا لگتا ہے ہمارے بعد کیا ہوگا؟

میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا، ایک ایسی صبح آئے گی جب قوم کے سارے بچے ، جوان، بوڑھے اپنے اپنے شہروں میں ایک جگہ جمع ہوں گے۔ اس دن پہلی دفعہ بے خوف و خطر ہوا میں ایک پرچم بلند ہوگا وہ پرچم جو ہمارا خواب ہے۔ ہوائیں اس پرچم کو سینے سے لگاکر تھامیں گی اور کہیں گی ہم برسوں اس آسرے میں چلے ہیں کہ کبھی اس خطے کا حقیقی پرچم بھی لہرائے گا۔

وہ پرچم جسے ہوا میں بلند کرنے کے لئے ہم نے گولیاں جسموں پر کھائی ہیں۔ وہ پرچم جس سے محبت کی پاداش میں سروں کو ڈرل کیا گیا، عزتوں کی پامالیاں کی گئیں۔

اس دن جب پرچم بلند ہورہا ہوگا قربانیاں دینے والے اور ان قربانیوں کو جاری رکھنے والے فخر سے کہتے ہوں گے ہمارے آباؤ اجداد نے گرمی،سردی بھوک پیاس سہا صرف اس پرچم کو ایک امن کی فضا بلند کرنے کے لئے۔

اس دن ایک ایک کرکے تمام شہیدوں کا نام لے کر انہیں خراج تحسین پیش کی جائے گی۔ اس دن جنت میں بیٹھے بابو نوروز کی محفل میں بابا خیر بخش مری اپنے ہم عمروں کیساتھ اپنے قوم کے تمام شہیدوں کو گلے لگائیں گے اور شاید وہ خوشی سے اتنا روئیں کہ زندگی میں کبھی نہ روئے تھے۔

دوگولیاں لگنے کے بعد اور انہی سے شہید ہونے کے بعد بھی میں جب اس دن کا سوچتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ابھی بھی مجھ سے اس پرچم کا حق ادا نہیں ہوپارہا۔

وہ پرچم جو ایک ایسے قوم کی ترجمانی کرے گا جس نے ہر دور میں اپنے اوپر ظلم ہوتے دیکھا اور مزاحمت کی بالآخر آزادی حاصل کی۔
پاؤں کی چھاپ قریب ہونے کو تھی میں نے شیہک کی طرف دیکھا وہ مسکان والے چہرے کیساتھ خاموش تھا میں نے کان اس کے سینے پر رکھا تو پتا چلا وہ شہید ہوچکا ہے میں نے اپنے بائیں ہاتھ سے ایک گرینیڈ ان کی طرف پھینکا جس سے اس کی زد میں آئے فوجی گرگئے۔ تب تین چار فوجی سامنے پہاڑ کی چوٹی سے خود کو چھپائے ہوئے تھے لیکن میں انہیں نہیں دیکھ پایا وہ مجھے زندہ پکڑنا چاہتے تھے یہی وجہ ہوگی انہوں نے مجھ پر پہلے گولیاں نہیں چلائیں۔ اس سے پہلے کے میں کلاشنکوف ان کی طرف کرتا اب ان کو میرے روپ میں اپنا موت نظر آیا تو ان سب نے میرے طرف فائرنگ کھول دی جن سے ایک گولی میرے گلے پر ایک سینے پر باقی جسم کے دوسرے حصوں پر لگے۔ میرے پہی سن ہوچکے تھے میں موت کو دیکھ پارہا تھا۔

موت کا درد دماغ محسوس کررہا تھا جیسے جیسے یہ درد سینے تک اور گلے تک آگیا میں نے کہا آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرتے ہوئے کہا میرا خواب میرا پرچم ایک دن ضرور پورا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں