ھانی بلوچ واقعہ، حقیقت کیا ہے؟ – محسن رند

838

ھانی بلوچ واقعہ،حقیقت کیا ہے؟

تحریر: محسن رند

دی بلوچستان پوسٹ

15 ستمبر سے پاکستان میڈیکل کمیشن کے آنلائن کالجز کے لئے انٹری ٹیسٹ دینے والے طلباء طالبات نے بے ضابطگیوں کے خلاف احتجاج شروع کیا۔کوئٹہ میں جب پہلے احتجاجی ریلی پر پولیس نے پتھراؤ کیا دوسری تنظیموں نے اسی دن شام کو ایک اور احتجاجی مظاہرے کی کال دی ، جسمیں بیشتر طلباء تنظیموں نے حصہ لیا۔ ان پر بھی پولیس نے تشدد کیا۔ اس کے بعد مظاہروں نے طول پکڑی طلباء تنظیموں نے اتحاد کا اعلان کیا ایک اور احتجاجی دھرنے کی کال دی۔

23 ستمبر کو جب انٹری ٹیسٹ کمیٹی اور بی ایس او ظریف نے مشترکہ احتجاج کا اعلان کیا جس کی حمایت تمام طلباء تنظیموں نے کی۔

23 ستمبر کے شام 6 بجے جب سٹوڈنٹس ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے، پہلی صف میں کھڑے لوگوں پر لاٹھی چارج ہوئی جن میں ھانی بھی شامل تھی۔ ایک پولیس والے نے جب ھانی بلوچ کو پیٹ میں ایک لات مارا تو وہ گر گئی۔

سنگت بلوچ(فرضی نام) کے ہاتھ میں ایک پاور بینک تھا، اس نے ہانی کو مارنے والے پولیس اہلکار کے سر پر وہ پاور بینک دے مارا۔ جس سے یکدم بھیڑ کی صورت میں مزید پولیس والے آئے۔مجھ پر اور سنگت بلوچ کو ڈنڈوں سے مارنا شروع کیا، ھانی پھر سنگت بلوچ کو بچانے آگے آئی تو اس کو بھی مارا گیا۔ ریڈ زون میں داخل ہونے سے پہلے ھانی دو بار الٹیاں کرچکی تھی۔

ھانی کیساتھ دو اور لڑکیاں تھیں جو مار سے بچ گئے تھے۔ میں اور سنگت بلوچ وہاں سے ھانی کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاکہ سنگت جو بہت زخمی تھا اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور لڑکیوں میں ہانی بھی زخمی تھی ان کو سول ہسپتال لے جا سکیں۔ جہاں ان دونوں کو آکسیجن دیا گیا اور زخموں کی مرہم پٹی کی۔ ہسپتال میں ھانی نے مجھ سے کہا میں شوگر کی مریضہ ہوں۔ میں پریشانی کے عالم میں تھا کہ شوگر کی مریضہ کا خون رکتا نہیں۔ وہ زخمی حالت میں تھی۔

سنگت کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں دوسرے وارڈ میں شفٹ کیا کیونکہ پولیس ہسپتال آئے تھے ہمیں گرفتار کرنے جس کی وجہ سے ہم گرفتاری سے بچ گئے۔ پولیس والے ہمیں ڈھونڈ رہے تھے کیونکہ ہم نے ھانی کی خاطر ایک پولیس والے کا سر پھوڑا تھا۔ اس وجہ سے ہم نے مشورہ کیا یہاں سے جلدی نکلا جائے کچھ دیر کے بعد ھانی ان دونوں لڑکیوں کیساتھ چلی گئی۔ یہ بتانا ضروری ہے ھانی اس وقت ان دونوں لڑکیوں کے سہارے چل رہی تھی۔

میں اور سنگت اسی دن سے ھانی بلوچ کے بارے میں بے چین تھے کیونکہ پولیس والے نے جب اس کے پیٹ پر لات مارا وہ وہی چیخ کر گر گئی تھی۔

چوبیس تاریخ کو ہمیں پتا چلا کہ ھانی اس دنیا میں نہیں رہی لیکن ہم نے اعتبار نہیں کیا ہم اس کے فیملی سے رابطہ کرنا چاہ رہے تھے تاکہ اس خبر کی سچائی معلوم ہو لیکن فیملی ذرائع سے رابطہ نہیں ہوا۔ ہانی کا قتل خون کے زیادہ بہنے کی وجہ سے ہوئی کیونکہ وہ شوگر کی مریضہ تھی۔ زخموں کے بعد وہ صرف 13 گھنٹے ہی زندہ رہ سکی۔

آج جب ھانی کے کنفرم شہادت کی اطلاع ملی تو مجھے وہ لات اور ڈنڈوں سے مارنے کے بعد اس کا چہرہ یاد آیا جو آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔ وہ آنکھیں جو درد سے رو رہی تھیں۔ اس شخص کو اس کے تنظیم نے یہ صلہ دیا کہ اس کی شہادت کو نیچرل ڈیتھ کا نام دیا۔

جام کمال اورنگزیب کے بیان پوسٹ کیئے جارہے ہیں ، یہ قتل ہم سے نہیں ہوا۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے بی ایس او ظریف اب لیاقت شاہوانی کی زبان بول رہاہے۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ھانی کا قاتل پولیس کے ہاتھوں ہوا ہے تو حکومت پر دباؤ آسکتا ہے لیکن سرخے بلوچوں نے جھوٹ بول کر حکومت بلوچستان اور قاتل پولیس کو بچا نے کی کوشش کی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں