فتح اسکواڈ کا ساتھی وشین – ملا امین بلوچ

1085

فتح اسکواڈ کا ساتھی وشین

 تحریر : ملا امین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آجوئی کے جدوجہد میں بہت سے ساتھی اس سفر میں شامل ہوتے ہیں، اپنے مادر وطن سے وفاداری اور مخلصی کا ایک جذبہ انہیں اس کھٹن راستے پر چلنے کیلئے آمادہ کرتا ہے جو اپنی زندگی کے تمام آرام و آسائش کو چھوڑ کر اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی فیصلہ انہیں کامیابی سے ہمکنارکر سکتا ہے وہ یا تو اپنے اس مقصد کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیئے امر ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہر کمزور انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی، ہر کوئی اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور اکثر جلد ہی اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس کٹھن راستے کا انتخاب کرنے والوں میں ہمارے ہمسفر ساتھی شہید وشین بھی تھا۔

میں بذات خود شہید وشین کو اتنا قریب سے نہیں جانتا تھا کیونکہ وہ پہلے زیر تعلیم تھا ساتھیوں کے کہنے کے مطابق شیہد وشین 2019 کو بولان میں چند دن ملاقات کےلئے آیا تھا اور تربیت حاصل کی تھی اور اس کے بعد وہ دوبارہ اپنی تعلیم مکمل کرنے واپس چلا گیا۔ شہید وشین کے قریبی رشتے داروں میں سے اکثر لوگ پاکستانی ریاست کا حصہ ہیں اسلیئے اسے تنظیم کی طرف سے اجازت دی گئی کہ وہ بھی ظاہری طور پر اس ریاست کے کسی ادارے کا حصہ بنے۔ اس دوران اس نے دو دفعہ پاکستان فوج میں شامل ہونے کے لیے درخواست بھی جمع کی لیکن ریاست شہید وشین کے فکر سے شاہد باخبر تھا اس کی درخواستیں خارج کر دی گئیں۔

مارچ 2021 میں وہ دوبارہ بولان آیا ساتھیوں کے کہنے کے مطابق اس دفعہ شہید وشین بالکل بدل چکا تھا۔ شہید وشین قابض ریاست کے ظلم سے سخت غصے میں تھا۔ وہ شہید حیات اور شہید بانک کریمہ اور دوسرے شہدا کی مثال دیتا تھا جوکہ ظالم ریاست کے ظلم کے نظر ہو گئے تھے۔ غیر مسلح اور پرامن لوگوں کی شہادت نے اسے بدل کر رکھ دیا تھا وہ کہتا تھا کہ بندوق کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہمارے سارے راستے بند کردیے گئے ہیں۔ وہ بہت جذباتی تھا اس سے پہلے وشین کو سات (راشن) لانے کے لیے جانا تھا اسے روک لیا گیا کیونکہ وشین شہر سے تازہ آیا تھا جسکی وجہ سے اسے پیدل سفر کرنے میں دقت پیش آرہی تھی کچھ ساتھیوں نے کہا کہ وشین پہاڑ میں ٹہرنا نہیں چاہتا ہے۔ اس لیے اسے روک لیا گیا کہ سات (راشن) لانے کو نہ جائے۔

16 اپریل کو ہماری پہلی ملاقات کسی خفیہ مقام پر ھوا۔ عام مجلس ہوئی اور صرف وشین سے یہی پوچھا گیا کہ سنگت آپ جلدی شہر تو نہیں جائیں گے؟ تو وشین نے جواب دیا “نہ ماما ای ھنداڑے کٹ زو شہرا ھیمپرا ننا شہر بولان اے” (نہیں ماما میں یہیں رہوں گا، ابھی واپس شہر نہیں جاؤں گا، میرا شہر بولان ہے) وہ قومی جدوجہد کے حوالے اور نوجوان نسل کے سوچ و تاثرات کے بارے میں ہمیں بریف کرتا رہا اور تقریباً رات دس بجے ہم سونے گئے کیونکہ ہم مسلسل تین ہفتوں سے پیدل سفر کرکے یہاں صرف وشین سے ملنے آئے تھے۔ اگلی صبح ہم دونوں رینج کے لئے نکل گئے وہ مجھ سے تحریک کےبارے میں بار بار سوال کرتا رہا میں ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا تھا تاکہ وشین کو مطمئن کر سکوں کہ کسی غلط راستے پر گامزن نہ ہو ، شام کو آخر دوبارہ اوتاک (کیمپ) پہنچے میں نے اپنا موبائل جیب سے نکالا اور شہید وشین کو تنظیم کا پربند “چیدہ” ( ضابطہ اخلاق) پڑھنے کےلئے دیا۔ تقریبا ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد وشین ہم سے مخاطب ہوا اور کہا “ماما فون نے فارغ ء ای پربند اے تسلی ٹی خوانیو؟ (اگر آپ کا فون فارغ ہے تو میں ضابطہ اخلاق کو مزید تسلی کے ساتھ پڑھوں گا) جی ماما فارغ اے (ہاں فارغ ہے) شام کو وشین نے دوبارہ فون ہمارے حوالے کی اور قریب بیٹھ گیا میں نے پوچھا “خواناس تے” ( پڑھا) جی ہو” (جی ہاں) میں نے پوچھا “انت پو مسوس ” (کیا سمجھے پھر) وشین ہنستے ہوئے “نم بھلو سفر اس طے کرینورے دا گیڑا ننا بروکا نسل کے حقیقت آ چیدہ سے او”( یہ ضابطہ اخلاق ہمارے آنے والی نسلوں کے لئے سچ میں روشنی ثابت ہوگی). ہم مسکراتے ہوئے “منت وار نما کہ قوم ننے پو مننگے” (شکریہ اب قوم ہمیں سمجھ رہی ہے) اس دن کے بعد وشین ہمارے ساتھ رہا وہ ہمارے ساتھ گپ شپ کرتا، ہنستا مسکراتا رہا۔

مئی کے دو تاریخ کو ہم سب ساتھی جمع ہونا شروع ہو گئے کمانڈر فرید، کمانڈر ازل کمانڈر، چیرمین کمانڈر تاجو، کمانڈر اسلم ، کمانڈر میر و کمانڈر ریس سب اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جمع ہوگئے جہاں سے ہمیں انڈیس ایریا میں پاکستانی فوج کے ایک بڑے کیمپ پر حملہ کرنا تھا، اسی دوران ڈیوٹی نے اطلاع دی کہ زرین ڈوک کی طرف سے پاکستانی فورس پیش قدمی کررہا ہے مرکزی کمانڈر نے نظر رکھنے کی ہدایت کی اور نگرانی بڑھا دی گئی۔

اگلی دوپہر دوبارہ ڈیوٹی نے اطلاع دی کہ قابض فورس ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کررہا ہے، اس دوران سب ساتھی جمع ہونا شروع ہو گئے تاکہ فوج کو گھیر لیا جائے ہر ساتھی کمانڈر سے یہی کہتا کہ مجھے جنگ کے لیے اجازت دے دو اس دوران شہید وشین نے کمانڈر تاجو سے کہا کہ جنگ کےلئے جاؤں گا مجھے اجازت دیں لیکن وشین کو اجازت نہیں ملی کیونکہ گرمی شدید تھی اس کے بعد سپیشل اسکواڈ کے سرمچار محاذ پر روانہ ہوئے تقریباً تین بجے پاکستانی فورس نے بیک اپ کیا اگلی شام کو ان چیک پوسٹوں پر قبضہ کرلیا گیا اور فوجی سازوسامان کو ضبط کر لیا گیا اور خیریت سے واپسی ہوئی۔

اگلی صبح پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے آپریشن کیلئے علاقے میں کمانڈوز اتارے اور سب ساتھی ڈسپرسس ہوگئے اور قبضہ والا معاملہ پھر رک گیا۔ تین دن آپریشن کے بعد ہم دوبارہ جمع ہو پائے اور جنگ کی طرف روانہ ہوئے اور تین دن مسلسل چلنے کے بعد اس ایریا پہنچے۔

جنگ کا کمانڈ کمانڈر ریئس بلوچ کے زمہ تھا اس نے فیصلہ کیا کہ فتح اسکواڈ کے ساتھی فرنٹ پر ہوں گے ، شہید وشین اس دوران فتح اسکواڈ کا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا اور اس معرکے میں شہید وشین کو کمانڈر اسلم کے گروپ میں فتح اسکواڈ کے ساتھیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔ وہ حد سے زیادہ خوش تھا اسں نے اپنے کلاشنکوف پر گرنیڈ لانچر فٹ کیا اور آٹھ گولے اٹھائے اور جنگ کے لئے روانہ ہوا۔ ظاہر ہے ٹارگٹ والا ایریا کافی دور تھا اور تمام ساتھیوں کو کیموفلاج ہونا تھا اور سفر کا زیادہ تر حصہ رات کے وقت طے کیا گیا۔

31 مئی کے دن شام 6 بج کر 36 منٹ پر پہلے کور نے دشمن کے مورچوں پر فائرنگ کردی، فتح اسکواڈ کے ساتھی اپنے ہدف کے لئے روانہ ہوئےاور تقریبا 9 منٹ میں کمانڈر اسلم اور شہید لیلا دشمن کیمپ کے پہلے مورچے پر قابض ہوگئے۔ اس کے بعد دوبدو لڑائی شروع ہوئی، شہید سارنگ پہلے دشمن کے گولیوں کا نشانہ بنے اس کے بعد شہید وشین مسلسل گرنیڈ لانچر سے گولے فائر کرتے رہے۔ اس کے بعد شہید وشین دشمن مورچوں کے اندر داخل ہوا ہم دوسرے کنارے پر مصروف جنگ تھے کہ اچانک مخابرے (واکی ٹاکی) سے آواز آئی کہ وشین زخمی ہوا ہے۔ ہمیں اپنی پوزیشن چھوڑنا پڑا ہم پوسٹ کے جنوبی سمت سے شمالی سمت آئے جہاں وشین زخمی حالت میں پڑے تھے خون بہہ رہا تھا وہ ہماری آواز سن رہا تھا، ساتھیوں نے باڑ کو توڑ دیا، وشین نے آواز لگائی ماما تئٹی بفرے نمے خلیک بڑوا (ماما اندر نہ آئیں کہ بڑوا آپ کو نشانہ بنا سکتے ہیں) لیکن ساتھی نہ رکے اور وشین کو بندوق کے ساتھ باہر نکالا وشین بالکل اپنے ہوش میں تھا اس نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا “ماما سنگتاتے تے پا کن کے پریشان مفیرے اللہ خیر کیک” ،(ماما دوستوں سے کہنا کہ میرے لیے پریشان نہ ہو اللہ خیر کرے گا) ساتھی وشین کو زخمی حالت میں اٹھائے پیچھے لے گئے اور ہم دوبارہ جنگ میں مصروف رہے۔ دس پندرہ منٹ بعد دوبارہ مخابرے سے آواز آئی کہ وشین ہم سے جسمانی طور پر جدا ہو گئے ہیں اور جنرل اسلم اور باقی شہید ساتھیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ شہیدوں کو یہاں سے لے جاؤ لیکن اس دوران ایک ساتھی دوڑ کر آیا اور کہا کہ وشین نے وصیت کی کہ ہماری جسد خاکی یہیں پر چھوڑ دیں تاکہ ہمارے فیملی والے ہماری جسدخاکی کو سنبھالیں گے ہم نے جواب دیا کہ ہم شہید وشین کی والدہ کو دشمن کے سامنے ذلیل ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے تمام شہیدوں کے اصل وارث تو تم سب ساتھی ہو، کیا تم اپنے بھائی کے لاش کو دشمن کے حوالے کرو گے؟ تاکہ دشمن ان کی آنکھیں نکالیں؟ بلکل بھی نہیں اپنی ساتھیوں کو کیوں چھوڑیں، تو پھر جاؤ اور شہدا کے لاشوں کو یہاں سے نکالو ، میں نے غصے سے کہا کہ ہم اپنے ہیروز کو دشمن کے حوالے نہیں کریں گے شہیدوں کو اٹھاو کچھ ساتھی شہیدوں کے ساتھ روانہ ہوئے ابھی تک جنگ چل رہی تھی کہ آواز آئی “لیلا زخمی ہوا ہے انھیں سنبھالو” چند دوست لیلا کو سنبھالنے کیلئے دوڑے۔ باقی ساتھی دشمن کے کیمپ پر قبضہ حاصل کرنے تک لڑتے رہے۔

کیمپ پر قبضہ اور وہاں موجود تمام اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد شہدا کی لاشوں، اور زخمی ساتھی لیلا کے ہمراہ ہم واپس ہوئے، تب کافی رات ہو چکی تھی راستے میں لیلا کو ابتدائی طبی امداد دی گئی لیکن لیلا منع کرتا رہا کہ خود کو تکلیف نہیں کرو۔ تقریباً رات ایک بجے ہم سب ساتھی جمع ہوئے ہم شہید وشین اور شہید سارنگ کو آسودہ خاک کررہے تھے کہ کمانڈر میرو نے اطلاع دی کہ لیلا ہم میں نہیں رہا۔ وہ وشین اور سارنگ کے پاس چلا گیا۔ ہم نے تینوں شہیدوں کوبولان کے پہاڑوں میں آسودہ خاک کیا اور وہاں سے نکل گئے۔

اسطرح شہید سارنگ، شہید وشین اور شہید لیلا ہم سے جسمانی طوپر جدا ہوئے لیکن فکری طور پر وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ شہیدوں نے ہمارے کندھوں کے بوجھ کو مزید بڑھا دیا اور ہمیں مزید ذمہ داری دے گئے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے، یہ ذمہ داری تنہا پہاڑوں میں لڑ رہے سرمچاروں پر عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ پوری قوم اور خاص کر نوجوانوں پر عائد ہوتی ہیں کہ وہ شہید آفتاب، شہید سارنگ، شہید لیلا اور دیگر ہزاروں شہدا کے ارمانوں کی تکمیل کے لیے ہمارا ساتھ دیں اور آزادی وطن کیلئے اپنی خدمات پیش کریں تاکہ شہید آفتاب جیسے شہدا کا خون ضائع نہ ہو۔

شہداء نے بناء کسی لالچ و غرض اپنی زندگیاں آنے والے نسلوں کی بہتر مستقبل کیلئے قربان کر دیں اب یہ آپ کے زمہ ہے کہ آپ اپنے لئے کس زندگی کا انتخاب کرتے ہیں ایک زندگی وہ ہے جس میں بے حسی ہے، شرم ہے، ذلت ہے اور دوسری آزاد انسانوں کی زندگی ہے، جہاں آپ مرنے کے بعد بھی زندہ رہیں گے وہ زندگی وشین، سارنگ اور لیلا کی زندگی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں