کتاب : تہذیبی نرگسیت | مبارک حیدر – سہیل بلوچ سرپرّہ

1093

کتاب : تہذیبی نرگسیت

مصنف : مبارک حیدر
ریویو :سہیل بلوچ سرپرّہ

دی بلوچستان پوسٹ

پروفیسر مبارک حیدر کی یہ کتاب کو عالمی پزیرائی اس لئے ملی کہ اس کتاب کا انگلش میں ترجمہ ” Taliban:The Tip of a Holy Iceberg” کے نام سے ہوئی.

اس کتاب میں مبارک حیدر مسلمانانِ جہان کے نفسیاتی,معاشی, اور مذہبی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں. کہ کیسے ایک مذہب کو قوم بنانے کی کوشش میں کن کن طریقوں سے اسے نرگیست میں مبتلا کردیا گیا اور یہ نرگسیت نسل در نسل منتقل ہوتا ہوا آج ہم اور ہمارے بعد ہماری نسلوں تک منتقل ہوتا رہے گا چونکہ مسلمانوں کے پاس اپنے ماضی پر فخر کرنے کے سوا اور کچھ نہیں.

ا نرگیست کا مطلب خود پسندی ہے. قدیم یونان کے دیو مالائی کہانی سے اخذ کی گئی ہے جس کا مرکزی کردار نارسس ایک خوبصورت ہیرو ہے جسے اس کے چاہنے والوں اور اردگرد کی دنیا میں کوئی دلچسپی نہ تھی. اپنی تعریف سنتے سنتے وہ اتنا خود پسند ہوگیا تھا کہ ایک دن پانی میں اپنا عکس دیکھ کر خود پر عاشق ہوگیا رات دن اپنے عکس کو دیکھتا رہا. بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے بھی پانی کو نہیں چھو سکتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پانی کی سطح ہلنے سے عکس ٹوٹ جائے گا اور اس کی شکل کا حسن ہزاروں ٹکڑوں میں بَٹ جائے گا. چنانچہ پیاس سے نڈھال ہوکر مرگیا . دیو مالا کے ایک بیان میں ہے کہ دیوتاؤں نے اسے نرگس کا پھول بنادیا اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا. مسلمان اسی قسم کے نرگسیت میں مبتلا ہیں.

تہذیبی نرگسیت سے مراد اپنے تہذیب کو ہی دنیا کا خوبصورت اور دلکش تہذیب مان کر زہن میں اپنے تہذیب یا مذہب کے بارے میں اُبھرتے سوالوں کی وجوہات کو اپنے ایمان کی کمزوری سمجھ کر سوالوں کا گلا گھونٹ دینا ہی اعلیٰ مسلمان ہونے کی نشانی ہے.

مسلمان جو کسی ملک میں پناہ لئے ہیں یا جہاں ان کی اکثریت آبادی ہے وہ ہر ملک میں اپنے حکمران ہونے کا خواب دیکھتے ہیں مسلمان سمجھتے ہیں کہ دنیا پر حکمرانی صرف ان کا ہی حق ہے.

اس کتاب میں طالبان کی حکومت پالیسیز کو بیان کیا گیا ہے. کس طرح طالبان دنیا پر اسلام کا پرچم بلند کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں. جب طالبان سویت یونین کے خلاف امریکہ سے امداد لے کر لڑ رہے تھے تب امریکہ ایک اسلام دوست ملک کہلاتا تھا لیکن جب طالبان حکومت نے القائدہ تنظیم کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دی اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہی اسلام دوست ملک کہلایا جانے والا اسلام دشمن ملک کہا جانے لگا حالانکہ سویت یونین کے خلاف طالبان کو اسلحہ فرائم کرتے وقت وہ ویتنام میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کررہا تھا چونکہ وہ مسلمان نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی اس کی پرواہ نہیں تھی.

اسلام مکمل ضابطہِ حیات ہے جیسے عقائد کو اسلام کے شروع میں ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جیسے کہ اس مکمل ضابطہِ حیات میں حکومت بنانے کا طریقہ کار کیا ہو کیسے بنائی جائے اس کا زکر نہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے کچھ دنوں بعد بغاوت فتنہ ارتداد اور خانہ جنگی کی حالت میں کیوں مبتلا ہوئے جبکہ ان کے دینی درجات پر شک نہیں کیا جاسکتا پھر چند برس بعد گزرنے کے بعد شہادت عثمان اور مسلمانوں کی مستقل تقسیم کے المیے پیدا ہوئے. دو اسلامی مراکز قائم ہوئے وراثتی بادشاہت آئی اور خاندانِ رسول کا قتلِ عام ہوا.

دوسرا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ جہاد کا ہے. قرآن میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ جہاد بھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے مگر یہ کب اور کیسے کیا جائے اس کا تفصیل سے کوئی زکر نہیں نہ ہی وہ لوگ جو جہاد کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کن حالات میں کیا جائے ان لوگوں کی تقرری کیسے ہوگی وہ کس بناء پر جہاد کرنا ضروری ہے کہ نہیں اس کا فیصلہ کریں گے.

500 سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے والوں کا جب تختہ الٹایا جاتا ہے تو انہیں یک دم دو قومی نظریہ کی ضرورت پڑتی ہے جس میں مسلمان اور ہندو الگ قوم ہیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے کا ڈنڈورا پیٹا جاتا ہے جبکہ اگر یہی مسلمان اگر جبر و طاقت سے غیر مذہب لوگوں پر اپنی بادشاہت قائم کرتے ہیں تب کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کی مریضانہ نرگسیت پر حملہ ہوا ہے کہ انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا ہے جس کے تحت وہ غیر مسلم پر حکومت کرتے آئے ہیں. یہی حال اسپین کا بھی جہاں 8 سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن پھر جب ان کی حکومت کا تختہ گرایا جاتا ہے تب وہ یکدم مظلومیت کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں.

اسلام نے عورتوں کو عزت دی کے ساتھ یہ کبھی نہیں کہا جاتا کہ 4 4 شادیوں کے ساتھ سینکڑوں لونڈیاں بھی حرم میں
رکھے جاسکتے ہیں.جیسے کہ آج تک عرب شیوخ کے حرم میں سیکنڑوں لونڈیاں اور غلام ہہں جنہیں جنسی تسکین کے لئے رکھا گیا ہے.
اسلام کی اب تک کی تاریخ میں لونڈیاں خرید کر ان سے جنسی خواہشات پوری کرنے کے ساتھ معاشی مدد کے لئے ان کو بیچا بھی جاسکتا ہے.

کہتے ہیں اسلامی طرز حکومت میں ہی انسانوں کی بھلائی ہے لیکن یہ کسی آیت یا حدیث میں بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کیسے قائم ہو وہ لوگ خلیفہ کو چننے کا طریقہِ کار کیا ہو.

اس کے ساتھ ہی جب خاندانِ سعود کو مقدس سرزمین حجاز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ دنیا بھر میں مدرسے اور مساجد پر فنڈنگ شروع کرتے ہیں جہاں اسلامی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ اگر مقدس سرزمین کی طرف کوئی بھی تنظیم یا ملک حملہ کرنے کا سوچے تو پوری دنیا کے مسلمان اکھٹے ہوکر اس طاقت کا مقابلہ کریں, مکہ اور مدینہ کی حفاظت کریں حالانکہ دیکھا جائے تو یہی علاقہ ایک سازش کے تحت خلافتِ ترک سے علیحدہ ہوا تھا. گویا ساری دنیا پر حملے کرکے اپنی حکومت بنانا صحیح ہے اور اگر وہی قومیں اپنی سرزمین یا حکومت واپس حاصل کریں تو وہاں کے مسلمان مظلومیت کا لبادہ اوڑھتے ہیں.

اگر مسلمان فاتحین دوسرے ملکوں پر حملہ آور ہوکر وہاں کی عورتوں کو اٹھا لائیں,لونڈیاں بنالیں حتٰی کہ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے بھی غلام رہیں تو اس کے حق میں ہم مسلمان دلائل پیش کریں گے لیکن اگر وہی قوم مسلمانوں سے آزادی حاصل کرے اور ان کی عورتوں کی بے حرمتی کا ارتکاب کریں تو یہ انسانی فطرت کا ایسا خلل تصور کیا جائے گا جس کی کبھی معافی نہیں. اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں مدرسوں کی فنڈنگ کی اہم وجہ یہ رہی کہ لوگ مکہ و مدینہ کی طرف حج و عمرہ کرنے آئیں جس سے انہیں فنڈنگ کئیے گئے پیسوں سے زیادہ نفع حاصل ہو. اور ہوا بھی یوں ہی.

اسلام شاید وہ واحد مذہب ہے جس کو ہر طرح سے دوسرے مذاہب پر فضیلت حاصل ہے اور مسجد و مدرسوں میں اسلام کی فضیلت مسلمانوں کی فضیلت ارکانِ اسلام کی فضیلت, تاریخ اسلام کی فضیلت مسلمان بزرگوں کی فضیلت,اسلامی تہذیب کی فضیلت, مسلمان فاتحین کی عظمت الغرض فضیلت اور عظمت کا ایک نہ ختم ہونے والا بیان.اسلام اگر تبلیغ اور تسخیر پر نکلے تو برحق اور اگر دوسرے مذاہب کی تبلیغ روک دے تو برحق, مسلمانوں کا غیر مسلموں کی آبادی تسخیر کرنا انہیں غلام اور ذمی بنانا ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنانا برحق لیکن غیر مسلموں کا کسی مسلم آبادی کے کسی مخصوص اور محدود حصے پر گولیاں چلانا اتنا بڑ جرم کہ عالمی جنگ کی تیاری مسلمانوں پر لازم.

سارا معاشرہ فخر کرتا پھر رہا ہے اور اگر 6 ماہ کی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہو اس واقعے کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ یہ انفرادی واقعہ ہے لیکن اگر غیر مذاہب میں ایسا کوئی واقعہ پیش آئے تو منبر پر بیٹھے واعظ یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ غیر مذاہب میں کیسے کیسے گھنونے کام ہوتے ہیں پھر اس کا ذمہ دار پورے معاشرے کو ٹہراتے ہیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں