توتک: دو لاپتہ بیٹوں کا منتظر عبداللہ قلندرانی انتقال کرگئے

541

بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے توتک سے لاپتہ فدا احمد اور ضیاء اللہ کے والد حاجی عبداللہ قلندارنی رات گئے انتقال کرگئے۔

نوجوان فدا احمد کو 2011 میں توتک آپریشن کے وقت پاکستانی فورسز نے حراست میں لاپتہ کیا جبکہ ان کے بھائی ضیاء اللہ کو ایک سال بعد جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

حاجی عبداللہ قلندرانی طویل عرصے کوما میں تھے۔ وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے بنیادی ارکان میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‏دو نوجوان بیٹوں کی جدائی کیا موت سے کم ہے؟ حقیقی موت تو ایک بار ہی آتی ہے لیکن ان 9 سالوں میں وہ کتنا تڑپا ہوگا، کیا وہ موت کی اذیت سے کم ہوگی، کتنی بار اپنے کو اور اپنے اہلخانہ کو اس بات کی تسلی دی ہوگی کہ آج نہیں تو کل وہ ضرور آئیں گے۔

خیال رہے خضدار میں 18 فروری 2011 کو پاکستانی فورسز نے توتک کے گاؤں کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی لی، کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی آپریشن میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے انہیں حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا بعدازاں ان میں سے کئی افراد بازیاب ہوگئے لیکن 82 سالہ محمد رحیم خان قلندرانی اور اس کے خاندان کے دیگر 16 افراد بازیاب نہیں ہوسکیں۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے دلمراد بلوچ نے حاجی عبداللہ قلندارنی کے وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے جبری گمشدگی کے شکار دو جوان بیٹے ضیااللہ اور فدا احمد ایک عشرے سے پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلوں اذیت سہہ رہے ہیں۔ دلمراد بلوچ نے کہا کہ دس سالوں سے منتظر حاجی عبداللہ قلندارنی کے آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔

واضح رہے تین روز قبل لاپتہ قلندرانی خاندان کے نوجوان ارشاد قلندرانی کے والد میر نواب خان قلندرانی بھی علالت کے باعث انتقال کرگئے تھے اس سے قبل توتک آپریشن میں لاپتہ نوجوان آصف قلندرانی کے والد جمعہ خان قلندرانی بھی انتقال کرگئے تھے۔

واضح  رہے توتک کے علاقے مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دو ہزار چودہ میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ ان قبروں سے کل ایک سو انہتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔